کیا اسلام آباد میں کچھ ہوا تھا۔ کچھ بھی تو نہیں ہوا پھر نہ جانے کیوں سڑکیں دھو کر صاف کر دی گئی ہیں۔ سڑکوں پر پڑا کچرا راتوں رات غائب کر دیا گیا ہے۔ 200 سے زائد لش پش گاڑیاں جو اسلام آباد پولیس نے قبضہ میں لی ہیں وہ چیخ چیخ کر بتا رہی ہیں کہ ہمارے ساتھ کچھ نہیں ہوا۔ کچھ بھی تو نہیں ہوا۔ لیکن دل ہے کہ مانتا ہی نہیں۔ وہ گاڑیاں اپنی جگہ شکوہ کر رہی ہیں کہ ہمارے مالکان نے ہمارے ساتھ بڑی بے وفائی کی ہے ہمیں تنہا چھوڑ کر نہ جانے کیوں بھاگ گئے ہیں۔ وہ تو بھلا ہو اسلام آباد کی رحم دل پولیس کا جس نے ہمیں تحفظ دیا ہے ورنہ نہ جانے بلوائی ہمارے ساتھ کیا سلوک کرتے۔ شکر ہے ہم کنٹینر کی طرح جلنے سے بچ گئیں، اس بچاو¿ پر ہم اسلام آباد پولیس کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ اب ہم محفوظ ہاتھوں میں ہیں اور یقین ہے اب یہ محفوظ ہاتھ ہمیں دوبارہ مشقت کے لیے سڑکوں پر نہیں آنے دیں گے۔ اب زندگی کے باقی دن یہیں گزریں گے۔ کنٹینر کو آگ لگنے سے یاد آیا پنجاب پولیس کی اکثر کارروائیوں میں ایسے ہی ہوتا ہے ملزمان پولیس سے مقابلے میں غلطی سے اپنے ہی بندے کو فائرنگ کرکے مار کر فرار ہو جاتے ہیں جس میں پولیس خوش قسمتی سے محفوظ رہتی ہے۔ اسی طرح اکثر وبیشتر پولیس جب بھی کسی ملزم کو نشاندھی کے لیے یا ریکوری کے لیے لے کر جا رہی ہوتی ہے تو ملزم کے ساتھی اسے چھڑوانے کے لیے پولیس پارٹی پر حملہ کر دیتے ہیں اور وہ اتنے اناڑی ہوتے ہیں کہ ان کی گولیوں سے ان کا اپنا ہی ساتھی مارا جاتا ہے۔ نہ حملہ آوروں کو کچھ ہوتا ہے نہ پولیس کو کچھ ہوتا ہے۔ حملہ آور بھی بھاگ جاتے ہیں اور پولیس والے بھی کہتے ہیں خس کم جہاں پاک۔ اس کی ایسے ہی آئی ہوئی تھی۔ اسلام آباد کو بلوائیوں سے خالی کروانے والی جو بھی فورس تھی اس نے کمال حکمت سے بلوائیوں کو منتشر کرکے پرامن طریقے سے گھروں کو واپس بھجوا دیا ہے۔ جو نہیں جاسکے انھیں سرکاری مہمان بنا لیا گیا ہے۔ بلوائی اتنے اناڑی تھے کہ انھیں منتشر ہونے کا بھی سلیقہ نہیں آتا تھا۔ بھاگتے ہوئے بھگدڑ میں ایک دوسرے سے ٹکرا کر زخمی ہوتے رہے لیکن جب کسی سے پوچھا جاتاہے اسلام آباد میں کیا ہوا تھا تو جواب آتا ہے کچھ نہیں ہوا۔ کچھ ہوا ہے تو ثبوت لائیں۔ وہ تو غیبی مدد تھی اللہ کی طرف سے اندھیرا چھا گیا اور احتجاجیوں کے دلوں پر ایسا خوف چھا گیا کہ اسی خوف کے مارے وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے، ان کے اوسان خطا ہو گئے۔ اگر کوئی زخمی ہوا ہو گا تو وہ آپس میں ٹکرانے کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ رحمدل فورس نے اتنی مہارت کے ساتھ خونخوار لوگوں سے اسلام آباد خالی کروایا کہ کسی کو خراش تک نہیں آئی، سب جانیں محفوظ رہیں اور اللہ کا شکر ہے پاکستان بچا لیا گیا ہے۔ اب فتنہ فساد ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکا، اب خوشحالی اور ترقی کا دور شروع ہوا چاہتا ہے۔ لیکن نہ جانے اتنی بڑی کامیابی کے بعد بھی کچھ لوگوں کی باڈی لینگوئج ان کا ساتھ نہیں دے رہی سب کچھ ٹھیک ہے تو اسلام آباد کی فضا کیوں افسردہ ہے۔ اسلام آباد کے شہریوں کے چہروں پر کس قسم کا کرب ہے۔ اتنے دن گزر جانے کے بعد بھی ماحول کیوں اداس ہے، اسلام آباد کی ہواو¿ں میں عجیب سی سمیل کیوں آ رہی ہے۔ نہ جانے اسلام آباد کے ہسپتالوں کا ماحول بھی روٹین والا نہیں۔ اسلام آباد کے ہسپتالوں کے ڈاکٹرز نرسز پیرا میڈیکل سٹاف ودیگر ملازمین کے چہرے کیوں سپاٹ دکھائی دیتے ہیں۔ ہسپتالوں پر خوف کے سائے کیوں ہیں۔ کچھ بھی تو نہیں ہوا، لگاتار ڈیوٹی کی جائے تو چہرے فریش کیسے رہ سکتے ہیں۔ ایسے ہی شکی مزاج لوگ شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ کچھ نہیں ہوا ریاست ہمیشہ سچ بولتی ہے اور رعایا کا فرض بنتا ہے کہ وہ ریاست کے ہر بیانیے کو آنکھیں بند کرکے سچ تسلیم کرے۔ اگر ریاست کہہ رہی ہے کہ کچھ نہیں ہوا تو اس کا مطلب ہے کچھ نہیں ہوا۔ جو لوگ کریدنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ وہ ادراک نہیں رکھتے، انھیں ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اہلیت کا اندازہ نہیں۔ دراصل یہ جھلے لوگ ہیں جب کچھ نہیں ہوا تو کیوں الٹے سیدھے سوال چھوڑ دیتے ہو۔ جب کہہ دیا کہ کچھ نہیں ہوا تو اس کا مطلب ہے کچھ نہیں ہوا۔ شاید ان کو نظر نہیں آتا کہ اسلام آباد کی صفائی کے ساتھ ہی سٹاک مارکیٹ چڑھ گئی ہے، ایک لاکھ پوائنٹس کی حد عبور ہو چکی ہے ایک لاکھ پوائنٹس کی حد عبور کرنے کا کبھی کوئی سوچ سکتا تھا؟۔ یہ سب لوگوں کے اعتماد کا مظہر ہے ذرا آنکھیں کھول کر دیکھیں ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی ہے۔ جب کچھ ہوا ہی نہیں تو وزیر اعظم کی جانب سے ٹاسک فورس کس لیے۔؟ دراصل یہ ٹاسک فورس ان لوگوں کے لیے ہے جو کہتے ہیں بڑا کچھ ہوا ہے۔ یہ ان لوگوں کی نشاندھی کے لیے بنائی گئی ہے جو جھوٹا پروپیگینڈا کر رہے ہیں، جو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ریاست اور سیکورٹی فورسز کے حوالے سے گمراہ کن پروپیگنڈہ کرکے ملک میں انتشار پھیلانا چاہتے ہیں۔ پہلے تو شاید کچھ نہیں ہوا اب بہت کچھ ہونے جا رہا ہے۔ شرطیہ نئے پرنٹوں کے ساتھ فلم تیار ہو رہی ہے۔ بس انتظار کریں اور آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔