شام کا دھماکہ، ترکی کا مخمصہ

Dec 03, 2024

عبداللہ طارق سہیل

abdullah 02
وغیرہ وغیرہ ……عبداللہ طارق سہیل۔
شام کی دھماکہ خیز صورت حال اس سے کہیں زیادہ دھماکہ خیز ہے جتنی نظر آ رہی ہے یا جتنی دکھائی جا رہی ہے۔ حلب کوہئیت التحریر الشام نامی تنظیم نے اپنے قبضے میں لے لیا ہے اور اب اس کے رستے شام کے چوتھے بڑے شہر ’’حما‘‘ تک پہنچ چکے ہیں اور شدید روسی بمباری نے شہر میں انہیں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔ اس صورتحال نے روس ایران امریکہ کے علاوہ ترکی کو بھی پریشان کر دیا ہے۔ ترکی ’’ہئیت ‘‘ کی حمایت کرے یا مخالفت، اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔
ہئیت التحریر کو بی بی سی کی ویب سائٹ حیات التحریر لکھ رہی ہے۔ اس لئے کہ تمام انگریزی نیوز ایجنسیاں اسے HAYAT لکھ رہی ہیں۔ ہئیت کے معانے یہاں ڈھانچہ کے ہیں کیونکہ اس میں سابق النصرۃ (نصرت) فرنٹ کے علاوہ کئی مزاحمتی تنظیمیں شامل ہو گئی ہیں۔
حلب پر شام نے بے پناہ روسی اور ایرانی بمباری اور لشکروں کی مدد سے 2016 ء میں مزاحمت کاروں کے قبضے سے واپس لیا تھا۔ مزاحمت کار شہر کے آدھے حصّے پر قابض تھے، آدھے پر باغیوں کا قبضہ تھا۔ باغیوں کا قبضہ چھڑانے میں ترکی نے بھی فعال کردار ادا کیا تھا۔ اس کے بعد شام اور ایران نے یہاں ایسی دفاعی لائنیں بنائیں کہ یہ شہر ناقابلِ تسخیر ہو گیا۔ غزہ کی جنگ کے بعد اسرائیل اور امریکہ نے شام میں ایرانی اور حزبی (حزب اللہ) کے اڈوں پر حملے شروع کئے اور اسرائیل نے لبنان میں حزب کا ڈھانچہ تباہ کر دیا۔ اس وقت، شاید مہینہ بھر پہلے راقم نے اپنے اسی کالم میں بتایا تھا کہ شام میں مزاحمت کاروں کی واپسی کا قوی امکان پیدا ہو گیا ہے۔
چنانچہ چند دن پہلے ہئیت نے غیر متوقع طور پر حملہ کیا۔ حلب کا ناقابلِ تسخیر دفاع 24 گھنٹے میں چکنا چور ہو گیا، شامی فوج کا حشر یہ ہوا کہ سینکڑوں مارے گئے، سینکڑوں گرفتار کر لئے گئے اور ہزاروں فرار ہو گئے۔ صرف ڈیڑھ دن میں پورا حلب مزاحمت کاروں کے قبضے میں تھا۔
2011 ء میں بغاوت شروع ہوئی تو حلب میں، جسے الیپو بھی کہا جاتا ہے، شام کا سب سے بڑا شہر ہے۔ ایرانی اور روسی فوجوں کے قتل عام اور نقل مکانی کے بعد اس شہر کی آبادی کم ہو گئی اور دمشق 25 لاکھ آبادی کے ساتھ سب سے بڑا اور حلب 20 لاکھ آبادی کے ساتھ دوسرا بڑا شہر بن گیا۔ ہئیت نے صرف حلب ہی نہیں اس کے اردگرد 25 میل کے ’’ریڈئس‘‘ میں موجود تمام چھوٹے شہر قصبات اور دیہات بھی قبضے میں لے لئے۔ شمالی شام میں شامی اور ایرانی افواج کا سب سے بڑا ہیڈ کوارٹر بھی ان کے قبضے میں آ گیا اور بیسیوں جنگی ہیلی کاپٹر صحیح سلامت ان کے ہاتھ لگے۔ اس سے بھی اہم پیشرفت یہ ہوئی کہ ادلیب کے جنوب سے لشکر نکلا اور آناً فاناً شام کے چوتھے بڑے شہر حما تک جا پہنچا۔ راستے میں واقع تمام شاہراہیں ، قصبے اور چھوٹے شہر لشکر کے قبضے میں آ گئے اور شامی فوج اس کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ ایران اور شام کی اپیل پر روسی فضائیہ حرکت میں آئی اور اب حما HAMA کے شمال میں اس کی زبردست بمباری نے مزاحمت کاروں کو حما میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔ باغیوں کا لشکر اس وقت دمشق سے 204 کلومیٹر پر موجود ہے اور دمشق کے جنوب میں واقع اہم شہر سویدا میں بھی بغاوت شروع ہو گئی ہے۔
ایران کی حامی عراقی ملیشیا ’’الشعب‘‘ کے کئی ہزار گوریلے کل شب شام میں داخل ہوئے تاکہ حلب اور حما کی جنگ میں تتّر بتر ہوتی سرکاری فوج کا ساتھ دے سکیں۔ یوکرائن کی جنگ نے روس کی تباہی پھیر دی ہے، وہ فوج نہیں بھیج سکتا، صرف بمباری کر سکتا ہے۔ ایران بھی فوج نہیں بھیج سکتا، اس نے عراق میں اپنی ملشیائوں کو متحرک کر دیا ہے۔ حزب اللہ اپنی بقا کی آخری جنگ لڑنے میں مصروف ہے اس لئے وہ بھی مدد نہیں کر سکتی۔
امریکہ نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔ وہ ’’ہئیت‘‘ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکا ہے۔ چین جس نے دس لاکھ شامی شہریوں کا قتل عام کرنے والے اتحاد (شام، ایران، روس، امریکہ) کی خاموش تائید کی تھی، اس صورت حال کا خاموشی سے جائزہ لے رہا ہے۔ ایران سب سے زیادہ پریشان ہے جس کی حاکمیت لبنان میں مکمل طور پر ختم ہو چکی اور شام میں بھی اسے بے دخلی کا سامنا ہے۔ لیکن انوکھی صورت حال ترکی کو درپیش ہے۔
وہ ادلیب میں ہئیت کی حکومت کا حامی اور مددگار ہے کیونکہ مستقبل میں یہ ’’انتظامیہ‘‘ اس کے کام آ سکتی ہے لیکن ہئیت کے اقتدار کا پھیلتا ہوتا دائرہ اس کیلئے پریشانی ہے۔ تین روزہ جنگ میں ادلیب حکومت نے اپنے زیر قبضہ علاقے میں دوگنے سے بھی زیادہ اضافہ کر لیا ہے۔
ہئیت بنیادی طور پر اخوان المسلمون کے عناصر کا نام ہے۔ ترکی اخوان سے اتنا ہی خائف ہے جتنا کہ عرب ملک۔ چند ماہ پہلے اس نے بہت سے اخوانی گرفتار کر کے مصر کی حکومت کے حوالے کر دئیے تھے۔
طیّب اردگان کو خطرہ ہے کہ ہئیت کی کامیابی کا دائرہ بڑھا تو ترکی کے اسلامسٹ بھی حوصلہ پکڑیں گے۔ ترکی میں اسلامسٹ عناصر اب طیّب اردگان کی پارٹی سے الگ ہو کر نئی پارٹی بنا چکے جس کا ووٹ بنک 15 سے 20 فیصد کے درمیان ہے۔ اردگان کی پارٹی اب ترکی قوم پرست پارٹی ہے جو ہر قیمت پر اسلامسٹوں اور کردوں کا خاتمہ چاہتی ہے۔ اسلام پسندی کا نقاب اس نے اتار پھینکا ہے۔ گزشتہ دنوں اس نے اپوزیشن کے اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے کہ اس کی حکومت اسرائیل کو غزہ جنگ کیلئے جدید ترین ہتھیار اور ڈرون طیارے دے رہی ہے۔
امریکہ کیا کرے گا؟__ اس نے ہئیت کی شدید مذمت تو کر دی ہے لیکن حتمی اور واضح پالیسی ٹرمپ کے صدارت کا حلف اٹھانے کے بعد ہی سامنے آئے گی۔
پاکستان کی جماعت اسلامی کچھ عرصہ پہلے تک اخوان المسلمون کو برادر تنظیم مانتی تھی لیکن ایران کی اتحادی بننے کے بعد اس کی اخوان سے دوری ہو گئی ہے۔ اور شام میں وہ ایران کی حامی ہے اگرچہ جماعت کے کارکن اب بھی اخوان کے حامی ہیں۔

مزیدخبریں