آلودہ فضا اور سیاسی آلودگی!!!!!!

سموگ نے شہریوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے، صاف فضا میں سانس لینا محال ہے۔ نیلا آسمان دیکھے بھی بہت وقت گذر چکا، ہر دن پاکستان کا کوئی شہر دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سب سے اوپر نظر آتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ہر سال نومبر دسمبر میں سموگ اور آلودگی کا شور مچانے ہیں، روتے پیٹتے ہیں، باتیں کرتے ہیں لیکن عملی اقدامات کی طرف نہیں جاتے، کتنے برسوں سے ہمیں اس مشکل کا سامنا ہے، سموگ کی وجہ سے ہر سال ان دنوں میں ہمارے معمولات زندگی متاثر ہوتے ہیں لیکن مجال ہے کہ حکومتی سطح پر اس اہم ترین مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی کام کیا گیا ہو، نمائشی اقدامات اور بیانات کی حد تک تو بہت کچھ ہوتا ہے لیکن آلودگی ختم کرنے کے لیے جو ہونا چاہیے وہ ہم نہیں کرتے۔ گذشتہ روز بھی لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں پہلے نمبر پر تھا۔
گذرے چند دنوں میں فضا کچھ بہتر تھی۔ چند دن اچھے گذرے لیکن اب پھر حالات بدل رہے ہیں، لاہور کی فضا بھی خراب ہو رہی ہے۔ لاہور کا فضائی معیار جو کہ مسلسل بہتر رہنا چاہیے ویسا نہیں ہے، لاکھوں لوگ اس آلودہ فضا کی وجہ سے متاثر ہو رہے ہیں۔ گذشتہ روز دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں لاہور کا پہلا نمبر تھا۔ لاہور میں پارٹیکولیٹ میٹرز کی تعداد 275 ریکارڈ کی گئی ہے، اس کے علاوہ ملتان میں پارٹیکولیٹ میٹرز کی تعداد دو سو اڑتالیس جب کہ کراچی میں ایک سو ترانوے ریکارڈ کی گئی ہے۔
کراچی کی فضا انتہائی مضر صحت ہے اور شہر قائد دنیاکے آلودہ ترین شہروں میں تیسرے نمبر پر ہے۔
ماہرین کے نزدیک 151 سے 200 انڈیکس مضر اور  201 سے 300 انتہائی مضر صحت ہے۔ یعنی لاہور کی فضا صحت کے لیے انتہائی مضر ہے۔ کیا آلودگی سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت نہیں ہے۔ ویسے تو سیاست دانوں کو ملک کی بہت فکر رہتی ہے لیکن کیا کسی کو انتہائی مضر صحت حالات کی کوئی فکر ہے۔ جب نومبر آتا ہے، عارضی طور پر مختلف اقدامات ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی قدرتی طور پر حالات میں بہتری آتی ہے سب بھول جاتے ہیں کہ اس مسئلے کے پائیدار حل کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہمارے غلط فیصلوں کی وجہ سے ماحول آلودہ ہوا ہے تو اسے ٹھیک کرنے کے لیے کام بھی ہمیں ہی کرنا پڑے گا۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے کچھ نہیں ہو سکتا۔ آج بھی حکومت عارضی اقدامات پر کام کر رہی ہے۔ 
پنجاب حکومت نے خراب انجن اور زیادہ دھواں چھوڑتی گاڑیوں کے روٹ پرمٹ منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مزید یہ کہ جمعہ اور اتوار کو ٹرکوں، بسوں اور بھاری گاڑیوں کے لاہور میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ سینئر وزیر مریم اورنگزیب کے مطابق اینٹی سموگ مہم کے تحت لودھراں، اوکاڑہ، وہاڑی اور سرگودھا میں چھ بھٹے گرا دئیے گئے جب کہ تین صنعتی یونٹ، ایک سٹیل رولنگ مل، ایک ٹیکسٹائل یونٹ اور ایک چاول مل سیل کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ خراب انجن اور زیادہ دھواں دینے والی ایک ہزار سے زائد گاڑیوں کی پڑتال کی گئی جن میں سے 144 گاڑیاں بند کردی گئیں۔ بغیر ترپال اور سموگ رولز پر عمل نہ کرنے والی ریت کی چونسٹھ ٹرالیاں بند کر دیں جب کہ کمرشل جنریٹرز اور بار بی کیو پوائنٹس کا معائنہ کیا گیا جہاں خلاف ورزیوں پر نوٹس جاری کیے گئے۔ 
پنجاب حکومت دعوی تو کرتی ہے کہ ان فیصلوں سے بتدریج سموگ پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ستمبر اکتوبر میں حکومت نے کچھ کیا، جنوری اور فروری میں حکومت ان فیصلوں پر عملدرآمد کرے گی۔ تاریخ کا سبق تو اس حوالے سے مختلف ہے لیکن ہم مستقبل قریب میں حکومت کو یاد کروائیں گے کہ دو دسمبر 2024 کو حکومت نے کیا کہا تھا۔ بہرحال آلودگی پر قابو پانے، فضا کو بہتر کرنے کے لیے طویل المدتی منصوبوں پر مستقل مزاجی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ماحول کو آلودہ کرنے والی ہر چیز پر پابندی عائد کرنا ہو گی۔ اس ضمن میں سارا سال نگرانی اور جرمانوں کی ضرورت ہے۔ صوبوں کو اس اہم مسئلے پر مل بیٹھنا چاہیے، وفاقی حکومت کو بھی ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کی مہم چلانی چاہیے۔
ویسے تو ملک میں سیاسی فضا بھی خاصی آلودہ ہے، جہاں انسانی بیانات اتنے آلودہ ہوں کہ ایک احتجاج کے بعد ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ سینکڑوں شہادتوں کا بیان دے، ایک سینئر سیاست دان ٹیلیویژن پروگرام میں 278 شہادتوں اور سینوں پر گولیاں مارنے کا دعوی کرے اور اسی جماعت کا چیئرمین پریس کانفرنس کر کے ان بیانات سے لاتعلقی کا اعلان کر دے تو اس سے زیادہ آلودہ سیاسی ماحول کیا ہو سکتا ہے۔ جہاں کسی کو یہ خیال بھی نہ رہے کہ سینکڑوں انسانوں کی موت کا دعوی سوچے سمجھے بغیر کر دیا جائے۔ کیا سیاست کے نام پر سب کچھ جائز ہو جاتا ہے، کیا اس سیاسی آلودگی کو ختم کرنے کے لیے بھی کوئی کام ہونا چاہیے یا نہیں، کیا اس سیاسی افراتفری جہاں درست اور غلط کی تمیز ختم ہو جائے، جہاں جھوٹ اور سچ کا فرق ختم ہو جائے، جہاں اچھے اور برے میں کوئی فرق باقی نہ رہے وہاں کیسی ترقی، کیسا استحکام اور کیا بہتری آئے گی۔ عام آدمی تک اگر جھوٹ ہی پہنچانا ہے، اسے غیر ذمہ دار ہی بنانا ہے، جھوٹ کو ہی پھیلانا ہے تو پھر اس فضا سے کبھی آلودگی ختم نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ آلودگی جو ہم اپنی زبانوں سے پھیلا رہے ہیں۔ اس نے تو کم نہیں ہونا۔ ایک صورت حال یہ بھی ہے کہ جب ہم اپنی ذہنی آلودگی پر قابو نہیں پا سکتے تو باقی کیا کام کریں گے۔ کاش کہ ہماری قیادت کی سوچ میں وسعت آئے، ان کے لیے سیاسی مفادات، سیاسی مقاصد کا حصول اولین ترجیح نہ ہو بلکہ ملک و قوم کا بہتر مستقبل اولین ترجیح ہو۔ کاش ایسا ہو۔
آخر میں فاخرہ بتول کا کلام
دسمبر اب کے آؤ تو
تم اْ س شہرِ تمنّا کی خبر لانا
کہ جس میں جگنوؤں کی کہکشائیں جھلملاتی ہیں
جہاں تتلی کے رنگوں سے فضائیں مسکراتی ہیں
وہاں چاروں طرف خوشبو وفا کی ہے
اور اْس کو جو بھی پوروں سے
نظر سے چھو گیا
 پل بھرمہک اْٹھا
دسمبر اب کے آؤ تو
تم اْ س شہرِ تمنّا کی خبر لانا
جہاں پر ریت کئے ذرّے ستارے ہیں
گل و بلبل ، مہ و انجم وفا کے استعارے ہیں
جہاں دل وہ سمندر ہے، کئی جس کے کنارے ہیں
جہاں قسمت کی دیوی مٹھیوں میں جگمگاتی ہے
جہاں دھڑکن کی لے پر بے خودی نغمہ سْناتی ہے
دسمبر! ہم سیمت پوچھہ ہمارے شہر کی بابت
یہاں آنکھوں میں گزرے کا رواں کی گرد ٹہری ہے
محبّت برف جیسی ہے یہاں، اور دھوپ کھیتوں میں اْگتی ہے
یہاں جب صبح آتی ہے تو۔۔ شب کے
سارے سپنے راکھہ کے اک ڈھیر کی صورت میں ڈھلتے ہیں
یہاں جذبوں کی ٹوٹی کرچیاں آنکھوں میں چبھتی ہیں
یہاں دل کے لہو میں اپنی پلکوں کو
ڈبو کر ہم سْنہرے خواب بْنتے ہیں پھر
اْن خوابوں میں جیتے ہیں
اْنہی خوابوں میں مرتے ہیں
دریدہ روح کو لفظوں سے سینا گو نہیں ممکن
مگر پھر بھی۔۔
دسمبر! اب کے آؤ تو
 تم اْ س شہرِ تمنّا کی خبر لانا

ای پیپر دی نیشن