آج دنیا بھر میں معذور افراد کا عالمی دن منایا جا رہا ہے مگر بڑے افسوس کی بات ہے کہ یہاں پر بسنے والے تقریبا ساڑھے تین کروڑ معذور عوام جنہیں اسپیشل پرسن کہا جاتا ہے مگر بالکل بھی سمجھا نہیں جاتا ان کے ساتھ حکومت معاشرے اداروں اور اپنوں کا سلوک رویہ نفرت آمیزاور تکلیف دہ ہوتا ہے ہے۔
انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں 77 سال گزرنے کے باوجود بھی معذور افراد کو معاشرے پر ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے اس کی حیثیت ایک بھکاری سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا مستقبل انتہائی تاریک نظر آتا ہے۔پیدائشی طور پر یا کسی حادثے کی وجہ سے معذوری جب ان کا مقدر بن جاتی ہے انہیں اپنے سے الگ تھلگ کر دیا جاتا ہے،انہیں لوگوں کی تلخ باتیں اور سخت جملے برداشت کرنے پڑتے ہیں، معذوری کے طعنے سننے پڑتے ہیں بلکہ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ معذور ی ان پر خدا کی طرف سے ہے کوئی ان سے ہمدردی یا دل جوئی نہیں کرتا۔
معذوروں کے ساتھ امتیازی اور ظالمانہ سلوک ان کے گھر سے شروع ہوتا ہے اور معاشرے سے ہوتا ہوا حکومتی سطح تک جاتا ہے۔ان کو پہلے دن سے ہی ناکارہ قرار دے کر ان کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور سمجھ لیا جاتا ہے کہ یہ اب زندگی میں کچھ نہیں کر سکتے بلکہ انہوں نے بس بھیک مانگنی ہے، اگر کسی گھر میں معذور بچہ موجود ہو تو والدین اس کی تعلیم و تربیت کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔یہ رویہ ہمارے معاشرے میں ہر طرف نظر آتا ہے کوئی بھی سرکاری یا غیر سرکاری ادارہ ان کے لیے کوئی سہولت یا آسانی پیدا کرنے کے لیے رسمی کارروائی سے آگے عملاً کچھ کرتے دکھائی نہیں دیتا۔ اگر کسی معذور کو اپنے کسی مسئلے کے لیے کسی سرکاری دفتر یا ادارے میں جانا پڑ جائے تو اس کے ساتھ تذلیل کاسلوک کیا جاتا ہے ، پورے ملک میں کہیں بھی معذوروں کے لیے بنیادی سہولیات موجود نہیں، کسی دفتر کسی ادارے کسی سرکاری یا پرائیویٹ بلڈنگ میں ویل چیئر کے لیے راستے موجود نہیں ہیں۔ چھوٹے بڑے شاپنگ سینٹرز،پلازے، ہوٹل اور ریسٹورنٹ کہیں بھی ویل چیئر افراد کو لے جانے کا انتظام نہیں۔ ریلوے ہو یا پرائیویٹ بسیں ویگنیں معمول کے حالات میں کہیں بھی ویل چیئر کی رسائی نہیں ۔
کہیں کوئی ایسا کلچرل سنٹر، پارک ، تفریح گاہ،سینماگھر،تھیٹریا کوئی اور جگہ ایسی نہیں جہاں معذورافراد اپنی ویل چیئر پر باآسانی جاسکیں ، اس ملک میں معذورںکا کوئی پرسان حال نہیں ان سہولتوں کے بغیر کسی بھی انسان کی زندگی مشکلات کا شکار ہے۔ آخر یہ بنیادی اور ضروری سہولیات کب ملیں گی اور کون یہ بنیادی سہولیات فراہم کرے گا ، ہمیں تویہ بھی معلوم نہیں کہ اس کا ذمہ دار کون ہے او ر کس کو جواب دہ حال ہی میں حکومت پنجاب کی طرف سے کچھ سہولیات دی گئی ہیں جو کہ نہ ہونے کے برابر ہیں دراصل جب کوئی بھی انسان کسی طرح کی معذوری میں مبتلا ہوتا ہے یا وہ معذور پیدا ہوتا ہے تو حکومت کی ذمہ داری ہے تو اس کے کیلئے وسائل پیدا کرے اس کی ری ہیبلیٹیشن یا اس کیلئے سہولیات پیدا کرے ۔
پورے پاکستان میں ایک بھی ایسا بڑا ری ہیبلی ٹیشن سنٹر موجود نہیں جہاں معذورافراد کی مکمل بحالی ہوسکے۔
77سالوں میں حکومت کی طرف سے معذوروںکی حوصلہ افزائی کے لئے آج تک کیا کیاگیاہے،ان کو سپورٹ یا موٹیویٹ کرنے کے لئے آج تک کیاہوا؟اجتماعی سطح ْپر نہ سہی انفرادی سطح پر جو معذور افراد اپنی زندگی کامیاب بنانے کے لئے اور دوسروں کی زندگی میں بہتری لانے کے لئے جدوجہد کررہے ہیںکسی حکومت نے آج تک ان کی بھی حوصلہ افزائی نہیںکی، کچھ شخصیات معذورہونے کے باوجود ایسے ایسے کارنامے سرانجام دے رہی ہیںکہ ان کی زندگی کی جدوجہد سے ہر ایک کو حوصلہ، موٹیوشن اور عزت کے ساتھ آگے بڑھنے کا سبق ملتا ہے۔جس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ 77سالوں میں پہلی بار ایک معذور کو سول ایوارڈ کے لئے نامزد کیا گیا ،آخری وقت تک یہ نام اس سول ایوارڈ کی فہرست میں شامل تھا لیکن جب یہ فہرست میڈیا پر جاری کی گئی تواس معذور شخصیت کا نام اس میں سے غائب تھا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ پہلی بارکسی معذور کی خدمات کا اعتراف کیا جا رہا تھا مگرنام ایوارڈلسٹ سے نکال کر معذور کی بری طرح حوصلہ شکنی کی گئی؟معذور افراد اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ مخلوق ہیں،حکومت کو چاہئے کہ اجتماعی سطح پر ان کے لئے سہولیات پیدا کرے اورمعذوروں کو عزت اورباعزت روزگار فراہم کرکے پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کی طرف پہلا قدم اٹھایا جائے۔