پاکستان میں ہونے والا تھیٹر ایک وقت میں پوری دنیا میں جہاں جہاں اردو پنجابی سمجھی اور بولی جاتی ہے وہاں بہت پسند کیا جاتا تھا۔ ہمارے نامور کامیڈینز نے تھیٹر کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچایا۔ لیکن ایک ایسا وقت بھی آیا کہ تھیٹر زوال پذیر ہو گیا اور یہاں پر کامیڈی کے نام پر کچھ اور ہی ہونے لگا۔ لیکن ہمارے پاس آج بھی ایسے فنکار موجود ہیں جنہوں نے تھیٹر کے عروج کا دور دیکھا اور اپنے کام سے خود کو منوایا۔ طاہر انجم بھی ایک ایسا نام ہے جنہوں نے تھیٹر کی دنیا میں اس وقت قدم رکھا جب پہلے سے ہی بڑے بڑے نام موجود تھے۔ بڑے کامیڈینز کی موجودگی میں اپنے فن کا لوہا منوانے والے طاہر انجم سیاست میں بھی قدم رکھ چکے ہیں اور تھیٹر سے دوری اختیار کئے ہوئے ہیں وہ تھیٹر میں کب واپسی کریں گے اور تھیٹر کی موجودہ صورتحال پر انکی کیا رائے ہے یہ جاننے کے لئے نوائے وقت نے گزشتہ دنوں ان سے خصوصی ملاقات کی۔
سوال :آپ اپنے کیرئیر کی بلندیوں پر جا رہے تھے کہ سیاست میں آگئے کیوں؟
طاہر انجم :سیاست میں ہر طبقے کے لوگوں کو آنا چاہیے، ضروری نہیں ہے کہ صرف ایک ہی طرح کے لوگ سیاست میں آئیں،ہمارے ہمسایہ ملک کی مثال ہمارے سامنے ہے ،ان کے کئی فنکار سیاست میں آئے اور نام کمایا اور ملک و قوم کی خدمت کی۔ ہمارے ہاں ایسا ٹرینڈ نہیں ہے کیونکہ سیاست میں آنے والے فنکاروں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔طارق عزیز جو ممبر قومی اسمبلی بنے انہوں نے مجھے ایک بار بتایا کہ میں سیاست میں آتو گیا ہوں لیکن بہت مایوس ہوں کیونکہ ممبر قومی اسمبلی عجیب سا مذاق کرتے ہیں۔ مجھے خود تو سیاست میں آنے کا کبھی بھی شوق نہیںرہا لیکن میرے اندر شروع سے ہی ملک و قوم کی خدمت کرنے کا جذبہ رہا ہے اس لئے سیاست میں آیا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہمارے بہت سارے فنکار کسمپرسی کی حالت میں اس دنیا سے چلے گئے ، لہذا میں اپنی فنکار برادری کے لئے بھی کچھ کرنا چاہتا ہوں، اور میں بہت جلد ایسے کام کروں گا جس سے ہماری فنکار برادری کا فائدہ ہو۔
سوال : اور بھی سیاسی جماعتیں تھیں لیکن مسلم لیگ ن کا ہی انتخاب کیوںکیا؟
طاہر انجم : بالکل ملک میں اور بھی بہت ساری سیاسی جماعتیں موجود ہیں جنہوں نے اپنے اپنے دور میں اچھا کام کیا لیکن مسلم لیگ ن پاکستان کی واحد سیاسی جماعت ہے جس نے اپنے ہر دور میں ایسے کام کئے کہ جس سے پاکستان ترقی کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔ لہذا میں ایسی سیاسی جماعت میں آنا چاہتا تھا جو کام کرنے والی ہو اور مسلم لیگ ن سے بہتر کوئی جماعت نہیں تھی۔
سوال: آپ اچھا بھلا کام کررہے تھے پیسہ کما رہے تھے اب کام چھوڑ کر سیاست میں آ چکے ہیں گزر بسر کیسے ہوتا ہے کیا میاں نواز شریف آپ کو کروڑوں روپے دیتے ہیں؟
طاہر انجم : مجھے کبھی بھی میاں صاحب نے کروڑوں روپے نہیں دئیے۔میں اپنی پہچان بھی خود لیکر مسلم لیگ ن میں آیا تھا تو پیسے لینا تو بہت دور کی بات ہے۔ رہی بات کہ گزارہ کیسے چل رہا ہے تو چیزیں بیچ بیچ کر سلسلہ چل رہا ہے اور جب تک میں سڑک پر نہیںآجاتا میں مسلم لیگ ن کے ساتھ ہوں۔ میں کام بالکل کررہا تھا لیکن دو سال سے بالکل ہی کام نہیں کیا ایک دو بار کوشش کی لیکن تحریک انصاف کے غنڈوں نے بیرون ملک میرے ساتھ بد تمیزی کی۔
سوال : آپ نے اپنا کیرئیر کہاں سے اور کیسے شروع کیا اور نامور لوگوں کی موجودگی میںاپنا نام بنانا کتنا مشکل رہا ؟
طاہر انجم :میرا تعلق دینی اور زمیندار گھرانے سے تھا۔ میں لاہور میں جب آیا تو مجھے یہاں سے عشق ہو گیا پھر میں کہیں نہیں گیا، یہیں پھرتا رہتا تھا کہ باغ جناح جانا ہوا وہاں تھیٹر ہوتا تھا ،بڑے نام نام کام کررہے تھے ، میں نے بھی قسمت آزمائی اور میرا بھی سلسلہ چل نکلا۔ میں امان اللہ ، ببو برال اور شوکی خان جیسے فنکارجن کا کام کسی پہاڑ کی اونچائی سے کم نہیں تھا ان تک تو نہ پہنچا لیکن ان کی بنیادوں تک ضرور پہنچا۔بس باغ جناح سے ہی میرے کیرئیر کا ا ?غاز ہوا اور اس کے بعد سلسلہ چل نکلا۔ ہمارے دور میں دو ہفتوں کی ریہرسل ہوتی ، کئی صفحات پر مشتمل سکرپٹ یاد کیا جاتا پھر ڈرامہ جب ہوتا تو شائقین پذیرائی دیتے۔ آج تو فنکاروں کو سکرپٹ ہی نہیں پڑھنا آتا۔
سوال: آج سٹیج پر جب ڈائریکٹر ، رائٹر ہی نہیں تو فنکار سکرپٹ کیا پڑھیں گے ؟
طاہر انجم : پرڈیوسر ، ڈائریکٹر اور فنکار تھیٹر کے ڈرامے کیلئے مین پلر ہیں ، لیکن اب ڈرامہ ان کے ہاتھوں سے لیا جا چکا ہے اب ڈرامہ انڈر ورلڈ کے لوگوں کے ہاتھوں میں آچکا ہے۔ جگہ جگہ تھیٹر بنا دیے گئے ہیں تھیٹر زیادہ ہونا اچھی بات ہے لیکن تھیٹر کے نام پر عریانی اور فحاشی نہیں ہونی چاہیے۔ تھیٹر میں گھس بیٹھیے آچکے ہیں۔ نام نہاد ڈائریکٹر رائٹرز ہیں۔اور تھیٹر پر جو کام کررہے ہیں وہ پتہ نہیں کون ہیں، مجھے تو ان کے نام بھی نہیں آتے۔ تھیٹر کے نیچے بہت سارے عاشقوں کی قبریں بھی بن چکی ہیں۔ہمارے ملک میں اصل میں دوہری پالیسی ہے، اینٹرٹینمنٹ اشرافیہ کے لئے ہے ، رکشہ والے ، ڈرائیور ز جو کہ تھیٹر کو انجوائے کرتے تھے وہ تو اب تھیٹر کی شکل بھی نہیںدیکھ سکتے کیونکہ ٹکٹ ہی اتنی مہنگی ہو چکی ہے۔ باقی جب رائٹر ڈائریکٹر نہیں تو فنکار کیا کام کریں گے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
سوال : معین اختر ہوں یا لہری، منور ظریف ، انور مقصو د ہر کسی کی کامیڈی کا اپنا انداز تھا، آج تو ایسا لگتا ہے کہ جیسییہ نئے آنیوالے اپنے پسندیدہ کسی فنکار کی بس جگتیں یاد کر لیتے ہیں کوئی قد آور کامیڈین نظر نہیںآتا کیوں؟
طاہر انجم : کسی آرٹسٹ یا سینئر سے انسپائر ہونا بری بات نہیں ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ ان کے کام سے سیکھنا بہت بہتر ہے اس کہ ان کی کی ہوئی جگتیںیاد کر لیں۔
سوال :ابھی تک آپ نے فنکاروں کی بہبود کے لئے کیا کیا ہے؟
طاہر انجم : بہت جلد چیزیں سامنے آئیں گی ، بہت کچھ ہے یقینا کرنے والا، کچھ بھی نہیں ہوا ، میں بس ابھی خاموش ہوں ، اور یہ خاموشی ٹوٹے گی تو بہت کچھ ٹوٹے شاید میں بھی ٹوٹ جاؤں گا۔
سوال : روبی انعم اور نرگس کے ساتھ بہت کام کیا کیا یادیں ہیں؟
طاہر انجم : روبی انعم بہت خوبصورت فنکارہ ہیں، میں ان سے بہت انسپائر تھا۔ان کے ساتھ بہت کام کیا روبی ہمیشہ میرے دل کے قریب رہیں گی۔فلمسٹار نرگس کے ساتھ بھی میں نے بہت کام کیا ، میں نے جو خواب دیکھا تھا وہ نرگس کے ساتھ کام کرکے پورا ہوا۔ تھیٹر اگر پانچ سو سال بھی ہوتا رہے لیکن نرگس جیسی آرٹسٹ تھیٹر انڈسڑی میں پیدا نہیںہو سکتی۔ وہ کراؤڈ کو جیسے انٹرٹین کرتی تھی اسکا کوئی ثانی نہیںتھا۔ مجھے ان کی حالیہ تصاویر دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ان کا شوہر بھی میرا بہت اچھا دوست ہے ، پتہ نہیں یہ کیا ہوا ، میری بات بھی نہیں ہوئی نرگس کے ساتھ۔ کاش میں اسے کوئی مشورہ دے سکوں کہ اسکی زندگی سے تشدد بالکل ہی ختم ہوجائے۔ باقی میں گھریلو تشدد کے بالکل خلاف ہوں ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
سوال :ایک طرف گنڈا پور سی ایم ہے اور دوسری مریم نواز شریف کیا کہیں گے ؟
طاہر انجم :گنڈا پور کو چاہیے کہ اپنی حجامت کروائیں تاکہ ان کو ہوش آئے ،یہ جاہل سی ایم ہے جو کے پی کے کو پنجاب کے ساتھ لڑوا رہا ہے۔ دوسری طرف مریم نواز شریف ہیں جو کہ دن رات کام کررہی ہیں اپنی صحت کا خیال بھی نہیں رکھتیں۔ جب وہ سی ایم بنی تھیں مجھے یقین تھا کہ وہ اچھا کام کریں گی لیکن اتنا اچھا کام کریں گی اس کا اندازہ نہیں تھا۔
سوال: کوئی پیغام ؟
طاہر انجم : ملک کے لئے ایک ہو کر سوچیں نفرتوں میں کچھ نہیں رکھا۔یہ ملک ہے تو ہم ہیں۔اس لئے اس کی قدر کریں۔