اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے خزانہ کے اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے مجلس قائمہ کو آئی ایم ایف کے ساتھ طے ہونے والے پروگرام میں کارکردگی کے مختلف اہداف، کاروباری اداروں کی کارکردگی اور ذکر معاشی اضاف کے بارے میں بریفنگ دی۔ انہوں نے کہا کہ ائی ایم ایف کے ساتھ یہ طے ہوا ہے کہ تمام صوبے اپنے زرعی انکم ٹیکس کے نظام کو وفاقی قوانین کے ساتھ مطابقت میں لائیں گے اور اس عمل کو جنوری میں مکمل کیا جائے گا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ائی ایم ایف کے تمام اہداف کو حاصل کرنا ہوں گا ، ٹیکسیشن انرجی سیکٹر اصلاحات کے لیے آبادی کنٹرول کرنا ناگزیر ہے ۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ پاکستان اور عالمی بینک 10 سال کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک پر دستخط کر رہے ہیں ملکی معیشت میں بہتری کے باعث سٹاک مارکیٹ میں بہتری ائی ہیِ عالمی مالیاتی ادارے کے پروگرام میں انے سے سارے مسائل حل نہیں ہو جائیں گیِ اہداف بھی حاصل کرنا ہوں گے۔ِ وزیر خزانہ نے کہا کہ مہنگائی کم ہونے کے عوام پر اثرات پہنچانا چاہتے ہیں اگر عالمی سطح پر قیمتوں میں کمی ہوئی تو ملک میں چیزیں سستی ہو جانی چاہیے۔ای سی سی اب قیمتوں میں کمی کے لیے اپنا کردار ادا کرے گی، دال و مرغی کے ریٹ کا جائزہ لیا ہے، معاشی اور توانائی کی اصلاحات پر عمل درامد کر کے دکھانا ہوگا، نجکاری کے متعلق ائی ایم ایف کے اہداف کو حاصل کرنا ہوگا، رائٹ سائزنگ اہداف حاصل کرنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ معاشی کمزوریاں، نقائص دور کرنے میں اب مزید تاخیر کی گنجائش نہیں ،ہم 25ویں ائی ایم ایف پروگرام میں آ چکے ہیں لیکن جو کام کرنے تھے وہ کام نہیں کیے۔بڑھتی آبادی کا بوجھ ہر معاشی حکمت عملی کو ناکام کر رہا ہے ۔ بچے غذائیت میں عدم تحفظ کا شکار ہیں، اگر بچے سکول نہیں جا رہے تو اقتصادی مستقبل تاریک ہو جائے گا ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ سٹیٹ بینک سے حکومت کے قرضوں کے حصول کو صفر کر دیا گیا ہے پرائمری بجٹ خسارہ بھی سیل ہے ۔ کمیٹی ارکان نے کہا ہم زرعی انکم ٹیکس کو تین گنا کر دیا گیا تو اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ انکم ٹیکس کے ریٹ کو کم کیا جائے، صوبوں کے ساتھ جامع پلان کے لیے بات چیت کریں گے۔ آئی ایم ایف ریویو مارچ میں متوقع ہے، شیڈیول کے مطابق یہ 22 نکات ہیں جن پر حکومت نے عمل کرنا ہے۔ ان میں سول افسران اور فیملی کے اثاثے ظاہر کرنا، فروری تک قانون میں ترمیم کرنا ، ٹیکس ایمنسٹی اور ٹیکس مراعات ختم کرنے، کسی قسم کی ضمنی گرانٹ جاری نہ کی جائے گی۔ مارچ 2025 تک زر مبادلہ کے ذخائر تین ماہ کہ دل کے برابر ہونا چاہیے، پبلک فائنانس رائٹ سائزنگ، محصولات ہدف کے مطابق کرنا ہوں گے۔ایک شرط یہ بھی ہے کہ اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک مارکیٹ میں ایکسچینج ریٹ 1.25 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ مرکزی بینک کے ذریعہ مبادلہ ذخائر رواں سال کے اختتام تک 8.65 ارب ڈالر تک ہونے چاہیے۔ گارنٹی کا حجم 5600 ارب روپے اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت رقم 599 ارب روپے سے زائد نہ ہو، حکومت مرکزی بینک سے قرضے نہیں لے گی، تاجروں سے دوست تاجر سکیم کے تحت 50 ارب روپے کا ٹیکس جمع ہونا چاہیے۔
اسلام آباد (عتر ت جعفری) پاکستان کوآئندہ سال فروری میں گیس ٹیرف کی ششماہی ایڈجسٹمنٹ کرنا ہوگی،ائی ایم ایف پروگرام کے تحت پاکستان کے ذمے جو کام لگے ہوئے ہیں ان میں ایک اہم کام یہ ہے کہ سرمایہ کاری بورڈ کو خصوصی اکنامک زون کو دی جانے والی مراعات کو رول بیک کرنے کا ایک پلان تیار کر کے پیش کرنا ہوگا اور اس کی تاریخ جون 2025 ہے،کھاد اور کرم کش ادویات پر پانچ فیصد کے تناسب سے ایکسائز ڈیوٹی لگائی جائے گی یہ اقدام بھی جون 2025 سے پہلے ہونا ضروری ہے۔ائی ایم ایف کے پروگرام پر عمل درامد جاری ہے اب تک جو بینچ مارک حاصل نہیں ہو سکے ہیں ان میں سے سب سے اہم ایف بی ار کے ریونیو کا شارٹ فال کیسے پورا کیا جائے گا اس کا پلان نہیں، صحت اور تعلیم پر اخراجات 625 ارب روپے ہونا چاہیے یہ ہدف بھی ابھی پورا نہیں ہو سکا.