عوامی مفاد کے مقدمہ میں مداخلت کرسکتے ہیں، آئینی بنچ 

Dec 03, 2024

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے بجلی تقسیم کار کمپنی کے ساتھ حکومتی معاہدوں کیخلاف درخواست پر اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا ہے۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 6 رکنی آئینی بنچ نے بجلی تقسیم کار کمپنی کے ساتھ حکومتی معاہدوں کیخلاف درخواست پر سماعت کی۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ بجلی کی فراہمی بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔ جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس میں کہا کہ بالکل بجلی فراہمی بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا ہم معاہدوں کو ختم کرسکتے ہیں؟۔ وکیل فیصل نقوی نے بتایا کہ ہم نے عدالت کے سامنے کرپشن اور بڈنگ دونوں ایشوز رکھے ہیں، 100 میں سے ایک معاہدے کیلئے بھی بڈنگ نہیں ہوئی، 1994 سے معاہدے ہو رہے ہیں اور دوہرائے جا رہے ہیں۔ بنچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ اب معاملات ٹریک پر آرہے ہیں، معاہدوں کے معاملات پر کچھ پیش رفت بھی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ 5 اگست کو ٹاسک فورس بنائی گئی ہے، کیا آپ ٹاسک فورس کی کارکردگی سے مطمئن نہیں؟۔ جسٹس جمال خان مندوخیل استفسار کیا کہ ہم حکومتی معاہدوں میں کیا مداخلت کرسکتے ہیں؟۔ جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ عوامی مفاد کا مقدمہ ہے ہم مداخلت کرسکتے ہیں، مستقبل کیلئے ہدایات بھی دی جاسکتی ہیں۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے ای او بی آئی پنشنرز کیس میں پنشن ادائیگی اور اضافے سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا ای او بی آئی پنشن کی ادائیگی کر رہی ہے؟۔ جس پر وکیل ای او بی آئی نے وضاحت دی کہ یہ کیس پنشن میں اضافے سے متعلق ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد ای او بی آئی کے صوبوں کو منتقلی کا معاملہ زیر غور رہا، تاہم مشترکہ مفادات کونسل نے ادارے کو وفاق کے تحت رکھنے کا فیصلہ کیا۔ درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ کئی سالوں سے ساڑھے دس ہزار روپے پنشن مل رہی ہے لیکن اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ وکیل ای او بی آئی نے مؤقف اپنایا کہ حکومت کی ہدایات کے مطابق پنشن میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ مقدمہ 2013 سے زیر التوا ہے اور کہیں نہ کہیں اسے ختم ہونا ہے۔ وکیل ای او بی آئی نے بتایا کہ کیس پنشن کو ساڑھے تین ہزار سے بڑھا کر 6 ہزار کرنے کے لیے دائر کیا گیا تھا، جس پر 2015 میں فیصلہ بھی ہو چکا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ای او بی آئی کے فنڈز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ادارے کے پاس اتنی بڑی کمائی اور وسائل موجود ہیں، پھر بھی مسائل حل نہیں ہو رہے۔ ادھر سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے آڈیو لیک کمشن کیس میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی حکومت سے ہدایات لینے کی استدعا منظور کرلی ہے۔ وفاقی حکومت کے وکیل نے آڈیو لیکس کمشن کے خلاف سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ کابینہ کے سامنے پیش کیا جانا تھا کہ حکومت آڈیوز کی انکوائری چاہتی ہے یا نہیں؟۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ معاملہ کابینہ کے سامنے پیش کیا جانا تھا مگر اسلام آباد میں حالیہ امن وامان کی صورتحال پر معاملہ کابینہ میں پیش نہیں ہو سکا، مختصر تاریخ دے دیں تو آڈیو لیکس کا معاملہ آئندہ کابینہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا اور پھر کابینہ کے آڈیو لیکس معاملے پر فیصلے سے آئینی بنچ کو آگاہ کیا جائے گا۔ بانی پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ آڈیولیکس کی قانونی حیثیت سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے۔ اس موقع پر جسٹس امین الدین نے کہا کہ اٹارنی جنرل آفس کو حکومت سے ہدایات لینے دیں، حکومتی ہدایات آنے کے بعد معاملے کو دیکھیں گے۔

مزیدخبریں