راولپنڈی (نوائے وقت رپورٹ) چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ سیکڑوں اموات کی بات کرنے والوں سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں۔ ہمارے 12 کارکن شہید ہوئے۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی خرابی صحت سے متعلق خبریں غلط ہیں۔ الحمدللہ عمران بالکل ٹھیک اور صحت مند ہیں۔ راولپنڈی میں اڈیالہ جیل کے باہر عمران خان سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم جمہوری اور ذمہ دار سیاسی جماعت ہیں۔ ہم نے آفیشلی 12 اموات بتائی ہیں، سیکڑوں اموات کی باتیں کرنے والوں سے کوئی تعلق نہیں۔ پی ٹی آئی پر کوئی پابندی نہیں لگے گی۔ آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان عمران کریں گے۔ بانی پی ٹی آئی کو 26 نومبر کے واقعہ کا علم نہیں تھا، ان کو معلومات فراہم کیں، ان کا مؤقف ہے کہ گولی کسی جانب سے نہیں چلنی چاہیے تھی، گولی جس نے بھی چلائی تحقیقات ہونی چاہئے۔ انہوں نے گولیاں چلنے کی مذمت کی ہے، گولی جس طرف سے بھی چلی، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ خان صاحب نے پارٹی کے لیے ہدایات دی ہیں کہ آپس میں ’اتحاد‘ برقرار رکھیں۔ عمران خان، پی ٹی آئی کے سب رہنمائوں پر اعتماد کرتے ہیں، سب رہنما کسی کے پیچھے نہ لپکیں، پارٹی کے آفیشل موقف کے ساتھ جڑے رہیں۔ ہم پر امن سیاسی جماعت ہیں، ہمارے لوگ مشکل صورتحال سے گزر رہے ہیں، میں پنجاب کے رہنمائوں کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں، جو مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ مخالفین ہم میں تقسیم پھیلانے کے لیے پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ عمران نے کارکنوں اور فورسز کے اہلکاروں کی شہادتوں، زخمی ہونے پر افسوس کا اظہار کیا۔ عمران خان نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع کرانے کی ہدایت کی ہے اور کہا ہے کہ سینٹ میں بھی اس معاملے پر آواز اٹھائی جائے۔ خان صاحب کا ایک ہی پیغام ہے۔ شہادتوں سے توجہ ہٹانے کے لیے کبھی ڈی چوک اور کبھی سنگجانی کے مقام کی بات کی جاتی ہے۔ کیا سنگجانی میں گولیاں چل جاتیں، تو ٹھیک ہوتا؟۔ ہمارا ایک ہی بیانیہ ہے کہ یہ سب نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ہم جمہوری جماعت ہیں اور غیر ذمہ دارانہ اعداد و شمار نہیں دیتے۔ ہم نے 12 افراد کے مرنے کا ’آفیشل فگر‘ دیا ہے، اس پر ہم قائم ہیں۔ ماضی میں آفتاب شیرپاؤ کے دور میں نفاذ شریعت کے لیے کیے گئے احتجاج میں بھی گولیاں چلنے کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس کے بعد وزیراعلیٰ چلا گیا۔ مرنے والوں کا ازالہ کیا گیا، معاملہ نمٹایا گیا۔ ماڈل ٹاؤن کا سانحہ بھی آپ کے سامنے ہے، اسی طرح اس معاملے پر بھی کمیشن بٹھائیں، جانچ کروائیں، یہ ہمارا مطالبہ رہے گا۔ تحریک انصاف اس وقت دنیا کی ساتویں بڑی سیاسی جماعت ہے۔ میں عمران خان کی ہدایات میں کمی بیشی نہیں کرتا۔ علی محمد خان بھی موجود ہیں، یہ آن ریکارڈ بات چیت ہے۔ میں نے مستقبل میں عمران خان سے کوئی عہدہ نہیں لینا، یہ بات میں عمران خان کو بھی بتا چکا ہوں۔ ہم تمام لوگ بہت زیادہ مصروف ہیں۔ سلمان اکرم راجا شہداء اور زخمیوں کے گھر گئے ہیں۔ پختونخوا حکومت نے شہداء کے لواحقین کو ایک کروڑ روپے معاوضہ دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔ ہم نے عمران خان کو پولیس اور دیگر اہلکاروں کی شہادت کا بھی بتایا، جس پر انہوں نے کہا کہ مجھے اس کا بے حد افسوس ہے۔ کسی بھی جگہ احتجاج ہوتا ہے تو مظاہرین پر گولی چلانے کا اختیار کسی کو نہیں ہوتا۔ خان صاحب کا پیغام ہے کہ تمام لوگ سب شہداء کے لیے قرآن خوانی کریں اور دعائیں کریں۔ ہمارا ڈی چوک آنا مقصد نہیں تھا‘ نہ پارٹی رہنماؤں کو ڈی چوک پہنچنے کا کہا گیا۔ لوگ صرف شہادتوں سے توجہ ہٹانے کیلئے سنگجانی اور ڈی چوک کی بات کر رہے ہیں۔ اصل مسئلہ ڈی چوک یا سنگجانی کا نہیں‘ گولی چلنے کا ہے۔ پنجاب کے اراکین اسمبلی اور صوبے سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی جن سختیوں سے گزرے ہیں ان کا بانی پی ٹی آئی کو احساس ہے۔ پارٹی اپنا احتساب کرتی ہے‘ آڈیو لیک پر یقین نہیں رکھتی۔ احتجاج جہاں بھی ہوا‘ گولی نہیں چلنی چاہئے تھی۔ گولی جس طرف سے بھی چلی‘ نہیں چلنی چاہئے تھی‘ گرفتار کارکنوں کی ہماری تعداد وہی ہے جو باضابطہ طور پر بتائی گئی۔ احتجاج کی جگہ پر ہر لیڈر کا پہنچنا ضروری نہیں تھا‘ تمام لیڈرز آپس میں رابطے میں تھے اور اپنا اپنا کام کر رہے تھے۔