سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے لاپتہ افراد کیس میں اٹارنی جنرل ، وزارت داخلہ ودیگر فریقین کو نوٹس جاری کر دیئے۔عدالت نے لاپتہ افراد کیس کی سماعت کے موقع پر کہا کہ لاپتہ افراد واپس آنے پر کہتے ہیں شمالی علاقہ جات آرام کیلئے گئے تھے.جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ لاپتہ افراد کے کسی مقدمہ کو مثال بنانا ہے تو اپنے اندر جرأت پیدا کریں، سسٹم میں کوئی کھڑا ہونے کو تیار نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میری نظر میں لاپتہ افراد کا کیس انتہائی اہم ہے.لاپتہ افراد کیسز ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ میں چل رہے ہیں. لوگوں کی زندگیاں ہیں ہزاروں لوگ لاپتہ ہیں.اس مسئلے کا حل پارلیمنٹ نے کرنا ہے۔ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ کابینہ میں لاپتہ افراد کا معاملہ گزشتہ روز ڈسکس ہوا.کابینہ نے ذیلی کمیٹی بنا دی ہے.ذیلی کمیٹی اپنی سفارشات کابینہ کو پیش کرے گی.حکومت لاپتہ افراد کا معاملہ حتمی طور پر حل کرنا چاہتی ہے۔جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ بیان بازی سے حل نہیں ہو گا. جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا لاپتہ افراد کمیشن نے ابتک کتنی ریکوریاں کی ہیں؟۔وکیل لطیف کھوسہ نے کہاکہ لاپتہ افراد سے بلوچستان سب سے زیادہ متاثرہ ہے. جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ قوم اور عدالت پارلیمنٹ کی طرف دیکھ رہی ہے.جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ لاپتہ افراد کیس میں عدالت کا آرڈر بھی مسنگ ہو گیا۔جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے ایک مقدمہ میں 25 وکیل پیش ہوئے.بلوچستان ہائیکورٹ کے حکم پر لاپتہ افراد گھر آ گئے.بازیابی کے بعد وہ افراد کسی عدالتی فورم پر بیان کیلئے پیش نہیں ہوئے۔جمال مندوخیل نے کہا کہ اسٹیک ہولڈرز سرجوڑ کر بیٹھیں.غور کریں لاپتہ افراد کا مسئلہ کیوں پیدا ہوتا ہے.پارلیمنٹ کو عدالت نے سپریم تسلیم کیا ہے. پارلیمنٹ خود کو سپریم ثابت کرے۔
بعد ازاں عدالت نے اٹارنی جنرل ، وزارت داخلہ ودیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے لاپتہ افراد پر تمام متعلقہ اداروں سے رپورٹس طلب کر لیں اور سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی۔