خواجہ عبدالحکیم عامر ۔۔۔
یہ حقیقت ہے کہ فوج کبھی اپنی مرضی سے اقتدار میں نہیں آئی۔ اسے ہر بار بعض عاقبت نااندیش سیاستدانوں نے بلایا۔ فوج کو اقتدار میں لا کر نئی نئی راہیں ہمارے سیاستدانوں نے ہی دکھائیں۔ اقتدار کو طویل کرنے کیلئے گُر انہی سیاستدانوں نے سکھائے۔ یہ ہمارے سیاستدان ہی ہیں جنہوں نے ہر بار فوج کو خوش آمدید کہا، فوج کی آمد پر مٹھائیاں تقسیم کیں۔ جشن منائے اور بھنگڑے ڈالے پھر ہر بار قوم نے دیکھا کہ فوجی حکمرانوں نے کس کس طریقے سے ملک کی چولیں ہلائیں۔ یہاں تک کہ ملک دو لخت کر ڈالا۔ یہ فوجی حکمران ہی ہیں جنہوں نے وطن عزیز کے اندر لسانیت پھونکی۔ یہ فوجی حکمران ہی ہیں جنہوں نے بلوچستان کو مشرقی پاکستان کے حالات سے دوچار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ فوجی حکمران ہی تھے جنہوں نے پاکستان کی سیاسی عوامی اور جمہوری قیادت کو جلاوطن رہنے پر مجبور رکھا۔ کہاں تک سنیں گے کہاں تک سنائوں۔ وہ کون سا ستم ہے جو وطن عزیز کی معیشت، جمہوریت اور بقا و سالمیت کو کمزور سے کمزور تک بنانے کیلئے روا نہیں رکھا گیا۔ یہ سب کچھ قصہ پارینہ تو ہے مگر تاریخ کا حصہ بھی بن چکا ہے جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل اور عوام کی طویل جدوجہد کے بعد آج پاک فوج کی قیادت کے غیر سیاسی اور پیشہ ور ہونے پر فخر کیا جا سکتا ہے۔ جناب اشفاق پرویز کیانی تمام تر بصیرت کے باوجود انہوں نے خود اور فوج کو سیاست کی دلدل سے دور بہت دور رکھا ہوا ہے۔ خیال تھا کہ پاکستان کی تمام جمہوری طاقتوں نے ماضی سے سبق سیکھ لیا ہو گا۔ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی بجائے سسٹم کو چلتا رکھیں گے لیکن کہتے ہیں نا کہ فطرت نہیں بدلتی۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے تین سال کیسے گزار لئے بالآخر فطرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ سب کچھ کر گزرنے پر تل گئے ہیں جس کے پیش نظر ’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘ کی آواز سنائی دینے لگی ہے۔ اگر کل کلاں سسٹم ختم ہو جاتا ہے اور قوم کو ایک بار پھر ’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘ کی آواز سننی پڑتی ہے تو یقین کیجئے قوم تو پہلے ہی سیاستدانوں کے کرتوتوں سے بیزار ہے۔ سسٹم میں تبدیلی کے بعد سیاستدانوں سے نفرت کرنے لگے گی۔ مولانا فضل الرحمن اور ایم کیو ایم نے جو کچھ کہا تاریخ کا حصہ بن چکا اور ثابت ہو گیا کہ یہ سب کچھ غیر جمہوری طاقتوں کے ایما پر کیا جا رہا ہے۔ ان حالات میں پاکستان مسلم لیگوں پر بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔ وہ متحد ہو کر سسٹم کو بچا سکتی ہیں اگر انہوں نے اپنا تعمیری رول ادا نہ کیا اور جمہوری سسٹم کو کمزور کیا تو ان کا شمار بھی مفاد پرستوں میں ہو گا۔
یہ حقیقت ہے کہ فوج کبھی اپنی مرضی سے اقتدار میں نہیں آئی۔ اسے ہر بار بعض عاقبت نااندیش سیاستدانوں نے بلایا۔ فوج کو اقتدار میں لا کر نئی نئی راہیں ہمارے سیاستدانوں نے ہی دکھائیں۔ اقتدار کو طویل کرنے کیلئے گُر انہی سیاستدانوں نے سکھائے۔ یہ ہمارے سیاستدان ہی ہیں جنہوں نے ہر بار فوج کو خوش آمدید کہا، فوج کی آمد پر مٹھائیاں تقسیم کیں۔ جشن منائے اور بھنگڑے ڈالے پھر ہر بار قوم نے دیکھا کہ فوجی حکمرانوں نے کس کس طریقے سے ملک کی چولیں ہلائیں۔ یہاں تک کہ ملک دو لخت کر ڈالا۔ یہ فوجی حکمران ہی ہیں جنہوں نے وطن عزیز کے اندر لسانیت پھونکی۔ یہ فوجی حکمران ہی ہیں جنہوں نے بلوچستان کو مشرقی پاکستان کے حالات سے دوچار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ فوجی حکمران ہی تھے جنہوں نے پاکستان کی سیاسی عوامی اور جمہوری قیادت کو جلاوطن رہنے پر مجبور رکھا۔ کہاں تک سنیں گے کہاں تک سنائوں۔ وہ کون سا ستم ہے جو وطن عزیز کی معیشت، جمہوریت اور بقا و سالمیت کو کمزور سے کمزور تک بنانے کیلئے روا نہیں رکھا گیا۔ یہ سب کچھ قصہ پارینہ تو ہے مگر تاریخ کا حصہ بھی بن چکا ہے جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل اور عوام کی طویل جدوجہد کے بعد آج پاک فوج کی قیادت کے غیر سیاسی اور پیشہ ور ہونے پر فخر کیا جا سکتا ہے۔ جناب اشفاق پرویز کیانی تمام تر بصیرت کے باوجود انہوں نے خود اور فوج کو سیاست کی دلدل سے دور بہت دور رکھا ہوا ہے۔ خیال تھا کہ پاکستان کی تمام جمہوری طاقتوں نے ماضی سے سبق سیکھ لیا ہو گا۔ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی بجائے سسٹم کو چلتا رکھیں گے لیکن کہتے ہیں نا کہ فطرت نہیں بدلتی۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے تین سال کیسے گزار لئے بالآخر فطرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ سب کچھ کر گزرنے پر تل گئے ہیں جس کے پیش نظر ’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘ کی آواز سنائی دینے لگی ہے۔ اگر کل کلاں سسٹم ختم ہو جاتا ہے اور قوم کو ایک بار پھر ’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘ کی آواز سننی پڑتی ہے تو یقین کیجئے قوم تو پہلے ہی سیاستدانوں کے کرتوتوں سے بیزار ہے۔ سسٹم میں تبدیلی کے بعد سیاستدانوں سے نفرت کرنے لگے گی۔ مولانا فضل الرحمن اور ایم کیو ایم نے جو کچھ کہا تاریخ کا حصہ بن چکا اور ثابت ہو گیا کہ یہ سب کچھ غیر جمہوری طاقتوں کے ایما پر کیا جا رہا ہے۔ ان حالات میں پاکستان مسلم لیگوں پر بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔ وہ متحد ہو کر سسٹم کو بچا سکتی ہیں اگر انہوں نے اپنا تعمیری رول ادا نہ کیا اور جمہوری سسٹم کو کمزور کیا تو ان کا شمار بھی مفاد پرستوں میں ہو گا۔