وہ دانائے سبل ختم الرسل ﷺ ۔۔۔

Feb 03, 2013

فضل حسین اعوان

صحرائے عرب کے سنگلاخ پہاڑوں اور ریگزاروں میں کھلنے والے رحمت و عظمت کے پھول کی خوشبو نے کائنات کو معطر کر دیا۔ شافعِ محشر ﷺ پوری انسانیت کی رہبری و رہنمائی کیلئے تشریف لائے۔ سیدالبشر‘ نبی مکرم ﷺ کا مقام و مرتبہ نور و بشر اور علمِ غیب کی مباحث سے کہیں بلند تر ہے۔ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر --- کہہ دیا اور مان لیا تو مزید بحث کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ ہمیں بحث و تمحیص میں اُلجھنے کے بجائے کردار و عمل پیہم کی ضرورت ہے۔ جس میں ہم اپنے آباﺅ اجداد سے بہت پیچھے ہیں۔ حضرت علامہ نے درست موازنہ کیا :
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
ہم خدا سے شکوہ کناں تو رہتے ہیں لیکن اپنی اطوار اور انداز پر غور کرتے ہیں‘ نہ اپنے اعمال‘ افعال اور کردار کا جائزہ لیتے ہیں‘ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہم غیروں کے رحم و کرم پر کیوں ہیں؟ انکے غیظ و غضب کا نشانہ کیوں بن رہے ہیں‘ اس قدر لاچار، بے بس‘ بدنام اور بے نام کیوں ہیں؟ وجہ بڑی سادہ سی ہے‘ ہمارے آبا جب سر پر کفن باندھ کر دنیا میں اسم محمد سے اُجالا کرنے نکلتے تو پہاڑ انکے راستے کی دیوار بنتے‘ نہ سمندر و دریا رکاوٹ‘ وہ طوفان کی مانند بڑھتے چلے جاتے۔ ہم حیران ہیں کہ بدر کی طرح آج فرشتے ہماری مدد کو کیوں نہیں آتے ہیں؟ فرشتے آج بھی مدد کیلئے کمربستہ ہیں‘ آپ معرکہ بدر تو برپا کریں‘ ہماری خواہش ہے ہم گھروں میں سر بسجود رہیں‘ فرشتے ہمارے دشمنوں پر ابابیل بن کر ٹوٹ پڑیں اور کامرانی کاپرچم ہمیں تھما دیں :
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
فضائے بدر پیدا کرنے کیلئے صاحب لولاک، سرور کشور رسالت کے نقشِ پا سے رہنمائی اور دانائی حاصل کرنا ہو گی۔ خدا تک رسائی کیلئے اسکے محبوب کا دامن تھامنا ہو گا :
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
آج ہماری دنیا میں ذلت و رسوائی‘ پستی و بے توقیری کی ایک ہی وجہ ہے کہ ہم نے اسوہ¿ رسول سے منہ موڑ کر ان سے رشتہ جوڑ لیا جن کے بارے میں قرآن اور صاحبِ قرآن کا ارشاد ہے‘ ”یہ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے“ --- جب ہم نے اپنا قبلہ ہی بدل لیا تو صاحبِ کعبہ سے شکوہ و شکایت کیوں؟ ہم شمشیر و سناں سے تائب‘ طاﺅس و رباب کے قائل ہو کر رہ گئے‘ تن آسانی کیلئے اپنا ضمیر بیچا‘ جاہ و جلال بیچا‘ خودی اور خودداری بیچی‘ شجاعت و کمال بیچا، عظمت و وقار بیچا پھر اپنے حال پر نظر دوڑاتے ہیں تو دل کے کسی نہاں خانے میں پڑی چنگاری‘ تابناک ماضی کی یاد دلاتی ہے تو دل سے نکلے ہوئے الفاظ آنسو بن کر بہنے لگتے ہیں :
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
اُمت پہ تیری آن عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے
اُمت پہ جو عجب وقت پڑا اور دین غریب الغربا ہوا‘ اس میں قصور کس کا؟ جب اُمت مباحات سے کنارہ کرکے خرافات میں کھو جائے‘ خرابات کو اپنا لے‘ آمادہِ فسادات ہو‘ تو ٹھنڈی ہَواﺅں اور منزہ فضاﺅں کی توقع عبث ہے۔ کیا ہم نے دین کو اوجِ ثریا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کیا؟ وہ کردارکیا ہے :
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد سے اُجالا کر دے
نبیوں کے تاجور‘ محبوب اکبر و عزوجل‘ شہنشاہ خوش خصال‘ پیکر حسن و جمال‘ دافعِ رنج و ملال نے بگڑے ہوئے معاشرے کو چند سال میں راہِ راست پر لا کر دنیا کا رہبر و رہنما بنا دیا۔ صاحب التاجِ والمعراج نے دنیا کو ایک دستور‘ ضابطہ حیات اور آئین دیا اس ہستی اطہر و مطہر کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمارے لئے منزل عظمت و عزیمت کا نشان ہے :
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کُل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
ہم گرد و غبار نہیں‘ انسان ہیں‘ اشرفِ مخلوق ہیں‘ اس نورمجسم کے اُمتی جو طواف کریں تو حرم بھی وجد میں آ جائے‘ ہماری ٹھوکر میں دنیا سما سکتی ہے‘ پہاڑ رائی بن سکتے ہیں‘ ضرورت نبی محترم و مکرم کے قدموں کی دھول کو سُرمہ بنا لینا ہے۔ خیرالبشر کے اسوہ کو اپنا لینا ہے۔ ہم پاکستانی سید عرب والعجم کا نام لے کر نکلیںتو اپنا کھویا ہوا مقام‘ عزت و وقار حاصل کر سکتے ہیں۔ اسلام کا پرچم بلند کر سکتے ہیں۔ اس کیلئے سر پر کفن باندھنا ہوگا‘ جان ہتھیلی پر رکھنا ہو گی‘ سربکف ہونا ہو گا‘ اسلام صرف نماز اور روزے میں ہی پوشیدہ نہیں۔ 
یہ شہادت گہِ اُلفت میں ہے قدم رکھنا
لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
ہمارے مصائب، مسائل، پستی، پسماندگی، درماندگی‘ دکھوں‘ دردوں کا ایک درماں ہے‘ دامنِ مصطفیٰ ﷺ تھام لیں‘ درِ خیرالانعام سے وابستہ ہو جائیں‘ ان کی رحمتوں سے پیوستہ ہو جائیں۔
یا صاحب الجمال و یا سیدالبشر
من و جہک المنیر لقد نورالقمر
لایمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

مزیدخبریں