قومی احتساب بیورو جسے زبان عام میں نیب کہا جاتا ہے۔ آئینی اعتبار سے ایک خود مختار ادارہ ہے۔ اس ادارے کی بنیاد ی ذمہ داری ملک کے سرکاری اور نجی اداروں میں انفرادی یا اجتماعی طور پر ہونے والی بد عنوانیوں، کرپشن اور مالیاتی جرائم پر نظر رکھنا ہے، اس میں ملوث افراد کے خلاف تحقیق و تفتیش کرنا اور نامزد افراد کو گرفتار کر کے انہیں سزائیں دلوانا شامل ہے۔ اس حوالے سے نیب کو وزیر اعظم، کابینہ کے ارکان، ممبران پارلیمنٹ،سیاستدان، بیورکریٹ، تاجر، سرمایہ دار،بینکار،دفاعی اور کارپوریٹ اداروں سے منسلک تمام افراد کے خلاف کارروائی کا حق ہے۔ اسی بناءپر کہا جاتا ہے کہ نیب ملک سے کرپشن، مالیاتی جرائم کے خاتمے اور اقتصادی دہشت گردی"Economic Terrorism" کو روکنے کا سب سے بڑا اور بااختیار ادارہ ہے۔ نیب کے مشن کو ایک فقرے میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔"To work to eliminate corruption through a comprehensive approach encompassing prevention, awareness, monitoring and combating" نیب کا قیام تیرہ سال قبل 16نومبر1999کو ہوا، اس کا صدر دفتر اسلام آبا دمیں ہے۔ جبکہ چاروں صوبوں میں اس کے ذیلی دفاتر کام کر رہے ہیں۔ کام کی نوعیت کے اعتبار سے نیب میں دوپرنسپل آفیسرز ہوتے ہیں ایک چیئرمین کہلاتا ہے جبکہ دوسرے کو پراسیکیوٹر جنرل آف اکاونٹیبلٹی کا نام دیا گیا ہے۔نیب کا چیئرمین Investigationکا سربراہ ہے جبکہ پراسیکیوٹر جنرل کا کامProsecution کرنا ہے۔ نیب کے چیئرمین کے عہدے کی مدت چار سال ہے نیب کے پہلے چیئرمین لفٹینٹ جنرل(ر) سید محمد امجد تھے۔ان کے علاوہ لفٹینٹ جنرل(ر) خالد مقبول، لفٹینٹ جنرل (ر) شاہد عزیز، نوید احسن، لفٹینٹ جنرل(ر) منیر حفیظ اور سیددیدار حسین شاہ شامل ہیں۔نیب کے موجودہ چیئرمین ریٹائرڈ ایڈمرل فصیح بخاری ہیں۔ نیوی میں فصیح بخاری کو تار پیڈو کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔فصیح بخاری1997میں نیوی کے چیف آف نیو ل سٹاف بنے اور 1999تک رہے۔مدت ملازمت مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ رضاکارانہ طورپر اپنے عہدے سے سبکدوش ہو گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وزیر اعظم نواز شریف نے فصیح بخاری کو جوائنٹ چیف آف آرمی سٹاف بنانے کی بجائے یہ عہدہ بھی اس وقت کے آرمی چیف پرویز مشرف کو دے دیا جو بقول فصیح بخاری کے ،سروس میں ان سے جونیئر تھے۔ فصیح بخاری نے نیوی سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد ایک کالم نگار اور دفاعی تجزیہ نگار کے طور پر اپنی مصروفیات جاری رکھیں۔ اکتوبر 2011 میں صدر آصف علی زرداری نے انہیں نیب کا چیئرمین بنا دیا۔چیئرمین نیب کے طور پر فصیح بخاری کی تعیناتی پہلے ہی دن سے متنازعہ رہی ہے۔حزب اختلاف اور خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کے قائدین نے ان کی تقرری کو کسی طور پر نہیں سراہا۔ان کی تقرری کے ساتھ ہی یہ گمان پایا جانے لگا کہ زرداری صاحب نے شاید ان کی تقرری اس لیے کی ہے کہ وہ نواز شریف فیملی کے کیسز کو آگے بڑھائیں گے۔فصیح بخاری صاحب کی چیئرمین کے طور پر تقرری کے ساتھ ہی ایسے ہائی پروفائل کیسز نیب کے سامنے آئے کہ انہیں سر کھجانے کی فرصت نہ ملی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت، وزرائ، اور اداروں کے سربراہوں نے قومی خزانے کو جس بے دردی سے لوٹا ، کھلے عام کرپشن اور بد عنوانی کی کہ نیب کے افسران کو انہی کیسز سے فرصت نہ ملی۔ اگر صورتحال ایسی نہ ہوتی تو شاید پرانی فائلوں کو دیکھتے۔ سپریم کورٹ نے نیب کے چیئرمین فصیح بخاری اور دوسرے افسران کی بھری عدالت میں کئی بار سرزنش کی کہ وہ ملکی خزانے کو لوٹنے والوں کیخلاف کارروائی کیوں نہیں کرتے؟ نیب کے چیئرمین فصیح بخاری کو توہین عدالت کے حالیہ نوٹس سے پہلے بھی نوٹس دیا جا چکا ہے۔جس کے جواب میں چیئرمین نیب نے غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے یہ عذر پیش کیا تھاکہ وہ نئے تعینات ہوئے ہیں اور انہیں بہت سے معاملات کا علم نہیں ، اسی بناءپر ان کی خلاصی ہوئی ۔لیکن اس بار کرایوں کے بجلی گھروں میں کرپشن کے معاملے میں سست روی سے تحقیق و تفتیش کرنے اور ریفرنس نہ بنانے پر چیئرمین نیب کو سپریم کورٹ نے کئی بار تنبیہہ کی لیکن نیب کی جانب سے خاطر خواہ پیش رفت نہ ہوئی۔ کرایوں کے بجلی گھروں کے حوالے سے سپریم کورٹ کی واضح ہدایت کے باجود نیب نے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اور اس مالیاتی سکینڈل میں ملوث دوسرے حکام کیخلاف جب کوئی ٹھوس کارروائی نہ کی تو سپریم کورٹ نے ملوث افراد کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔اس پر نیب کے چیئرمین فصیح بخاری نے صدر مملکت کو ایک خط لکھا جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ عدالت ان پر دباﺅ ڈال رہی ہے ۔ سپریم کورٹ نے اس صور تحال کا نوٹس لیتے ہوئے چیئرمین نیب کو توہین عدالت کا جو تازہ نوٹس جاری کیا ہے اس پر چار فروری کو کارروائی ہو گی۔ یہ کارروائی کئی اعتبار سے خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔چیئرمین نیب کی تقرری کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔انہیں اس عہدے سے ہٹانے کے لیے ان پر الزامات فریم کر کے جوڈیشل کونسل کو بھیجے جاتے ہیں اور ان الزامات کے ثابت ہونے پر ہی انہیں چیئرمین نیب کے عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے۔لیکن اگر عدالت انہیں توہین عدالت کیس میں سزا دے دے تو وہ فوری طور پر اپنے عہدے سے برطرف تصور کیے جائیں گے، چیئرمین نیب کا مسقبل کیا ہو گا؟ اس کا اندازہ سپریم کورٹ میں ہونے والی کارروائی سے ہی لگایا جا سکے گا۔رائے عامہ کا خیال ہے کہ چیئرمین نیب کی پوزیشن کوئی سیاسی پوسٹ نہیں، بلکہ یہ ایک انتہائی با اختیار اور پر کشش عہدہ ہے۔ ا ن کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس عمل میں نیب کی حیثیت ایک عدالتی معاون کی سی ہوتی ہے ۔ نیب کے چیئرمین یا کسی اور ادارے کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ سپریم کورٹ سے مخاصمت لے۔ .... (جاری)