اگرچہ جنرل (ر) شاہد عزیز کی حالیہ متنازعہ کتاب کا فلیپ لکھنے کی جسارت اس ناچیز بندہ کی ہے مگر اس کی نوک پلک سنوارتے ہوئے کارگل کے حوالے سے میں نے ان سے کھل کر اختلاف رائے کا اظہار کیا اور اس سلسلے میں جنرل شاہد عزیز، میاں نواز شریف اور جنرل ضیاالدین بٹ کا موقف جنرل مشرف پرویز سے ذاتی مخاصمت کا آئینہ دار ہے۔ مجھے 9/11کے بعد مشرف کی افغانستان میں امریکی عزائم کا آلہ کار بننے اور افغانستان کے مسلمانوں کے بیجا قتل عام پر جنرل شاہد عزیز کے موقف سے مکمل اتفاق ہے مگر بدقسمتی سے ہمارا میڈیا جنرل شاہد عزیز کے اس نقطہ نظر کو کھل کر بیان نہیں کر رہا جو امریکہ مخالف ‘ اگرچہ کارگل کے حوالے سے پرویز مشرف کا بیان کافی حد تک حقیقت کے قریب ہے کہ یہ پاک فوج کے لائٹ انفنٹری ڈویژن کی کنٹرول لائن پر ایک محدود فوجی کارروائی تھی اور میاں نواز شریف اس آپریشن سے مکمل آگاہ تھے۔ کابینہ کی دفاعی کونسل کے اجلاس میں وزیراعظم کو اسکے متعلق مکمل بریف کیا گیا تھا اور اس حوالے سے جنرل مشرف کا کہنا ہے کہ میری اس بات کی تصدیق چودھری شجاعت اور راجہ ظفرالحق سے قرآن پاک پر حلف لے کر کی جا سکتی ہے۔ تاہم مجھے پرویز مشرف کا جنرل شاہد عزیز کے متعلق یہ کہنا بے حد ناگوار محسوس ہوا ہے کہ پہلے یہ سب کچھ غلط کرتا تھا اب یہ مولوی بن گیا ہے اور داڑھی رکھ لی ہے۔ اگر کوئی شخص قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کر کے ماضی کے گناہوں سے تائب ہو کر نماز، روزہ اور دینی اقدار کے مطابق زندگی بسر کرنا شروع کر دے تو اس کو اس حوالے سے طعنہ دینا انتہائی پست ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ نیتوں کا بھید اللہ جانتا ہے مگر جہاں تک مجھے معلوم ہے کہ سال 2003-04ءمیں حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد جنرل شاہد عزیز نے باشرع مسلمان بن کر زندگی گزارنی شروع کر دی تھی اور وہ ہر وقت اسی بات پر سخت افسوس اور قلق کا شکار رہتے تھے کہ امریکہ کی فوج سے مسلمان افواج کو کلمہ گو بھائیوں کیخلاف جنگ کرنا پڑی اور وہ اپنے آپ کو آج بھی اس میں قصور وار سمجھتے رہتے ہیں۔ بہرحال ہر شخص کے ایمان، مذہبی فکر اور سوچ میں تبدیلی کا معاملہ اس کے اپنے رب تعالیٰ کے ساتھ ہے لیکن قومی معاملات میں جنرل صاحب کی سوچ و فکر ایسی نہیں ہونی چاہئے جس سے ہمارا دشمن ہندوستان ہمارے خلاف منفی پراپیگنڈہ شروع کر دے اسی ایک نقطے پر نوائے وقت کے نظریاتی لکھاریوں کو اعتراض ہے۔ بہرحال کارگل کے ایشو پر جس قدر ڈیفنس اور سٹریٹجک موضوعات پر ریسرچ کرنے والے پی ایچ ڈی سکالرز نے تحقیقاتی کام کیا ہے۔ ان میں بیشتر تھیسز (مقالات) کے مطابق یہ ایک بے مثال کامیاب فوج اپریشن تھا۔ قارئین ریاست جموں و کشمیر میں کنٹرول لائن کے اس پار کارگل کی پہاڑیوں کی برفیلی چوٹیوں پر بھارتی فوج ہر سال سازگار موسم میں قبضہ کر لیتی تھی اور سرما کی شدت کے آغاز میں انہیں چھوڑ کر میدانی علاقوں کی طرف چلی جاتی تھی۔ فروری 1999ءکے سال کے اوائل میں جب ابھی بھارتی فوج اس علاقے میں واپس نہیں آئی تھی تو ناردرن لائٹ انفنٹری (نیم فوجی یونٹ) کے مجاہدین نے ایک دلیرانہ اور ماہرانہ مہم کے نتیجے میں ان پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا۔ بڑی دیر تک بھارتی افواج اور انکی خفیہ ایجنسیاں اس صورتحال سے بے خبر ہیں۔ ایک روایت ہے کہ آخر وقت تک بھارتی انٹیلی جنس کارگل میں کشمیری مجاہدین کی موجودگی سے بے خبر رہی اور یہ امریکی تھے جنہوں نے بھارت کو مجاہدین کی موجودگی سے آگاہ کیا۔ جنرل شاہد عزیز بھی اپنی کتاب میں بڑے فخر سے یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ ہندوستانی انٹیلی جنس کی مکمل ناکامی تھی کہ انہیں گلگت کے ایریا میں اس قدر وسیع پیمانے پر مجاہدین کی نقل و حرکت کا پتہ نہ چل سکا۔ اسکے فوراً بعد بھارتی نے ایک طرف ان چوٹیوں کو مجاہدین سے خالی کرانے کے اور خود ان پر قبضہ کرنے کی سرتوڑ کوششیں شروع کر دیں تو دوسری اس نے عالمی رائے عامہ کے سامنے اپنے آپ کو جارحیت کا شکار فریق ثابت کرنے اور اسکی ہمدردیاں حاصل کرنے کی وسیع کوششیں شروع کیں اور پاکستان کو نہ صرف ریاست جموں و کشمیر میں ”مسلمہ“ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کا الزام دیا بلکہ یہ بھی کہا کہ چونکہ اب دونوں ملکوں کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اس لئے پاکستان کی مبینہ مداخلت کی وجہ سے جنوبی ایشیاءمیں جوہری جنگ کا حقیقی خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ بھارت نے یہ شور بھی برپا کیا کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو معمول پر لانے اور تنازع کشمیر کا حل تلاش کرنے کیلئے جو عمل مسٹر اٹل بہاری واجپائی کے دورہ پاکستان سے شروع ہوا تھا اور جسے بس ڈپلومیسی کا نام دیا گیا تھا وہ بھی سخت خطرے میں پڑ گیا ہے چونکہ بس ڈپلومیسی کو امریکہ کی آشیر باد حاصل تھی اس لئے بھارت کے شور و غوغا نے مغربی حلقوں میں پاکستان کیخلاف ایک منفی ردعمل ابھارا۔اگرچہ یہ بات ابھی تک پوری طرح واضح نہیں ہو سکی ہے کہ کارگل کا آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کب اور کس سطح پر کیا گیا لیکن یہ بات بہرحال طے ہے کہ اس وقت ملک کی حکمران سیاسی قیادت اور فوجی قیادت نہ صرف اس آپریشن کے منصوبے سے مکمل آگاہ تھیں بلکہ انکے درمیان اسکے مقاصد اور اہداف اور اس کو جاری رکھنے کے سوال پر مکمل ہم آہنگی تھی مگر بدقسمتی یہ ہوئی کہ ایک ایسا آپریشن شروع کرنے جس کا انتہائی طاقتور منفی ردعمل بھارت کی طرف سے یقینی تھا۔ بھارت کے امکانی اقدامات کا مقابلہ اور توڑ کرنے کی نواز شریف حکومت نے کوئی سیاسی منصوبہ بندی نہ کی۔ چونکہ کارگل کا آپریشن صرف اعلیٰ ترین فوجی اور سیاسی حکمران قیادت کا برین چائلڈ رہا اور دوسرے حکومتی اداروں کو نہ تو اسکی منصوبے بندی میں پوری طرح اعتماد میں لیا گیا اور نہ اس کو شروع کرنے کے بعد بھارت کے امکانی بلکہ یقینی اقدامات کا توڑ کرنے کی کوئی منصوبہ بندی انکے ذریعے کی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جب بھارت نے پوری دنیا میں پاکستان کی مبینہ جارحیت اور مہم جوئی کا زوردار پروپیگنڈا شروع کیا تو عالمی حلقوں نے بھارت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے پاکستان سے مطالبہ شروع کر دیا کہ کارگل کی چوٹیوں کو مجاہدین اور بقول بھارتی حکومت پاکستانی فوجیوں سے خالی کرائے۔ بیرونی دنیا نے یہ تسلیم کر لیا کہ کارگل پر قبضہ کرنیوالے مجاہدین نہیں بلکہ پاکستانی فوج کے ریگولر دستے ہیں۔ بھارت اپنی فضائیہ اور مزید بری افواج کو اس سیکٹر پر جھونک دینے کے باوجود کارگل کی چوٹیوں کو واپس لینے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اگرچہ پاکستان کے مجاہدین کی بڑی تعداد بھی شہادتوں کے رتبے پر فائز ہوئی مگر کیپٹن کرنل شیر شہید (نشان حیدر) اور حوالدار لالک جان جیسے سینکڑوں بے باک، نڈر اور بہادر فوجی جوانوں نے بہادری اور دلیری کی ایسی داستانیں رقم کیں کہ دشمن کے جہاں دو جیٹ جہازوں کو کو گرایا گیا وہیں انکے فوجیوں کی ہلاکتیں ہم سے کئی گنا زیادہ تھیں اور ہندوستان کے اس وقت سری نگر میں 15ویں کور کے کمانڈر جنرل کشن پال کے مطابق بھارت اسٹریٹجک لحاظ سے کارگل جنگ بری طرح ہار گیا تھا۔ اس جنگ میں 587بھارتی فوجی ہلاک اور 1363زخمی ہوئے۔ عام پراپیگنڈے کے برعکس کارگل جنگ بھارت نے قطعاً نہیں جیتی تھی۔ جب پاکستان پر امریکہ، مغربی ممالک حتیٰ کے چین نے دباﺅ ڈالا کہ ہندوستان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے معاملہ طے کیا جائے اور ہر حال میں پاکستانی افواج کارگل کی چوٹیاں خالی کر دے تو غیرمعمولی سفارتی تنہائی اور معاشی مشکلات کا شکار ہونے کے خدشات امریکی صدر جی ایٹ ممالک، یورپی یونین ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور اس وقت امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل انتھونی کی کارگل اپریشن کے حوالے سے عملاً بھارت کی ہمنوائی نے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کو اعلان واشنگٹن پر مجبور کر دیا۔ میاں نواز شریف نے امریکہ کی ڈکٹیشن قبول کرتے ہوئے یکطرفہ طور پر کارگل کے حوالے سے بھارتی اور مغربی مطالبات تسلیم کر لئے جس کا یہ نقصان ہوا کہ لائن آف کنٹرول کو ایک خاص سرحدی تقدس حاصل ہو گیا اور پاکستان کیلئے کشمیر تنازع کسی عالمی فورم پر اٹھانا زیادہ مشکل ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ایک ذمہ دار ادارے کے سروے کیمطابق 85فیصد پاکستانیوں نے اعلان واشنگٹن پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ نواز شریف اور ان کے ساتھی لاکھ کہیں کہ اعلان واشنگٹن کی بڑی وجہ جنرل مشرف کا نواز شریف کی ترلے منتیں کرنا تھا مگر سوچنے سمجھنے والے لوگوں کی رائے میں حسب ذیل عوامل نے ہمیں اس اعلان پر دستخط کرنے پر آمادہ یا مجبور کیا۔ 1۔ کارگل کے موضوع پر ہم سفارتی جنگ قطعی طور پر ہار گئے اور کسی بھی قابل ذکر قوت کی طرف سے ہمارے موقف کی مکمل تائید دیکھنے اور سننے میں نہ آئی۔ 2۔ پاکستان پر واضح کر دیا گیا کہ اس نے امریکہ کی خواہش اور ہدایت پر عمل نہ کیا تو صدر کلنٹن سفارتی اور سیاسی قوت کا پورا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈال دینگے۔ 3۔ عالمی مالیاتی اداروں نے امریکہ کے ایما پر واضح اشارہ پاکستان کو دیا کہ کارگل آپریشن کا خاتمہ نہ کیا گیا تو اس پر وہی اقتصادی پابندی دوبارہ عائد کر دی جائینگی جو مئی کے جوہری دھماکوں کے بعد عائد کی گئی تھیں۔ 4۔ پاکستان کو ملفوف انداز میں یہ پیغام دیا گیا کہ اگر وہ کارگل آپریشن کو جاری رکھنے پر مصر رہا تو اس کی اہم دفاعی تنصیبات کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔