ہماری عزت جج سے زیادہ ہے‘ کہاں لکھا ہے پہلے مینڈیٹ لینا ہوگا: کائرہ‘ پارلیمنٹ کے خلاف باتیں کرنے والے ججوں کو معاف نہیں کیا جائے گا: خورشید شاہ

سکھر (نامہ نگار + نوائے وقت نیوز + آن لائن) وفاقی وزیر مذہبی امور سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ پارلیمینٹ کے خلاف باتیں کر نے وا لے ججزگریز کریں ججز کی کرسی پر بیٹھ کر باتیں کرنے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا، انہیں آئین و قانون کی حد میں رہتے ہوئے ریمارکس دینے چاہئیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سکھر میں یوٹیلیٹی سٹور کے افتتاح کے موقع پر میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے ججز کے بیان کو پارلیمینٹ میں زیر بحث لائیں گے، پارلیمنٹ کو پانچ سال کا مینڈیٹ ہے اور خود مختار اور سپریم ادارہ ہے جو آخری دن تک قانون سازی کر سکتا ہے۔ ملکی اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہئے۔ ہم نے پانچ سالوں میں ہر چیز کو برداشت کیا ہے، یہاں تک کہ وزیراعظم اور وزرا کو بھی عدالتوں میں جانا پڑا ہے حالانکہ مقدمات ثابت بھی نہیں ہوئے ہیں جس کے باوجود ہم نے کوشش کی ہے کہ ملک میں انارکی نہ پھیلے، جذبات سے نہیں ذہن سے فیصلے کرنے پڑتے ہیں، باقی پینتالیس دنوں میں کوئی ایسا فیصلے نہیں کریںگے جس سے ملک میں انارکی پھیلے یا کسی کو ایکشن کرنے کا بہانہ مل جائے۔ انہوں نے کہا کہ صوبوں کے قیام کے حوالے سے آئین میں جو طریقہ کار ہے اسے ہی استعمال کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ذخیرہ اندوزی صرف یہاں نہیں ہر جگہ ہو تی ہے مگر ان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن الیکشن ہوتا ہے ایک ہزار لوگوں کو جمع کرنے سے کوئی الیکشن جیت نہیں جاتا اس کا فیصلہ اٹھارہ کروڑ لوگ کرتے ہیں کسی کے کوئی بات ذہن میں نہیں ڈالی جا سکتی ہم الیکشن کو آسان نہیں سمجھتے یہ ٹف ہی ہوتے ہیں۔ جے یو آئی اس وقت اپوزیشن میں ہے اسے اپنے لئے کوئی بھی فیصلہ کر نے کا حق حاصل ہے وہ ہمارے ساتھ بھی ساڑھے چار سال تک حکومت میں رہی ہے۔ سکھر سے نامہ نگار کے مطابق خورشید شاہ کا کہنا ہے موجودہ اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کریں گی، اداروں کو اپنے حدود میں رہ کر کام کرنا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا لوگوں کو یوٹیلیٹی سٹور سے اشیائے خوردونوش خریدنا چاہئے۔ یہاں بازار سے کم قیمت پر معیاری اشیا ملتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا حکومت نے گندم کی مہنگائی کا نوٹس لیا ہے اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا اسمبلیاں آئینی مدت پوری کر رہی ہیں، الیکشن وقت پر ہوں گے، ملک میں موجود اداروں کو اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہئے۔ پارلیمنٹ آزاد و خودمختار ادارہ ہے، جب تک یہ اسمبلی ہے قانون سازی ہوتی رہے گی۔
لالہ موسیٰ (نامہ نگار) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چودھری قمر زمان کائرہ نے ڈیرہ کائرہ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے ہمیں عدلیہ کا بہت احترام ہے لیکن وہ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ جس قانون پر اور آئین پر آپ عمل کرنے کے پابند ہیں وہ قانون یہ پارلیمنٹ بناتی ہے۔ وہ عوام کے منتخب نمائندے بناتے ہیں، وہ جج صاحبان نہیں مناتے، جج صاحبان نے صرف قانون پر عمل کرنا ہے، اس کا مطلب یہ ہے ہمیں قانون سازی کا پتہ نہیں۔ اس طرح کی گفتگو سے پرہیز کیا جانا چاہئے۔ پارلیمان سپریم ادارہ ہے، ہمیں عدالتوں کے جج صاحبان کا بہت احترام ہے لیکن انہیں بھی پارلیمانی کی سپرمیسی کا احترام کرنا ہو گا۔ پارلیمان کا کوئی ممبر غلط کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ادارے کی مذمت کر دی جائے، کوئی جج غلط فیصلہ دیتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ پورے ادارے کی مذمت کر دی جائے، سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیا تھا تو ہم کیا اس عمارت کو جا کر گرا دیں۔ ہم نے تو آج تک یہ نہیں کہا مہربانی کریں عدالتی کارروائی کے اندر بھی گفتگو کا اور الفاظ کا چناﺅ بڑا مناسب ہونا چاہئے اس لئے کہ آج میڈیا چیزوں کو بڑی تیزی سے اپنے رنگ میں پوٹریٹ کر لیتا ہے جس سے بڑے ابہام پیدا ہوتے ہیں۔ ہم عوام کے منتخب نمائندے ہیں، دس دس آٹھ آٹھ لاکھ لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ہمیں عوام 5 برسوں کیلئے چن کر بھیجتے ہیں۔ ہم ”ہینڈپک“ لوگ نہیں، ہماری عزت پاکستان کے کسی بھی جج سے زیادہ ہے، ہم عوام کے چنے لوگ ہیں، ہمیں عدلیہ کا احترام کرنا ہے بالکل ان کا احترام ہے لیکن ہمارا بھی احترام کیا جانا چاہئے۔ یہی مینڈیٹری ہے۔ ہمیں یہ کہہ دینا چند سو لوگ جو بیٹھے ہیں عوام رپ اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکتے، یہ چند سو لوگوں کی مرضی نہیں، ان ہی چند سو لوگوں نے آئین کو تبدیل کیا ہے، ان ہی چند سو لوگوں نے عدالتوں کو بحال کیا ہے۔ ان ہی چند سو لوگوں نے ملک کیلئے قانون سازی کرنی ہے، یہ ہمارا مینڈیٹ ہے اور کہاں لکھا ہے ہمیں پہلے مینڈیٹ لینا ہو گا۔ حدِادب میں رہتے ہوئے ہو سکتا ہے مجھے آپ کے فیصلوں سے اختلاف ہو، میں دل سے نہ مانتا ہوں ان فیصلوں کو، فیصلوں پر عمل کرنا میری ڈیوٹی ہے، میں کروں گا۔ انہوں نے کہا چودھری نثار کی طرف سے خیر کے کلمے ذرا کم ہی آیا کرتے ہیں، شہنشاہ آدمی ہیں اور ان کا ایک مزاج ہے۔ شاید وہ سمجھتے ہیں لڑائی ہی سارا کچھ ہے حالانکہ دنیا میں جمہوریت ہی ہے، یہ لڑنے کا نام نہیں، رویئے یہ ہیں آپ آپس میں بیٹھ کر ایک دوسرے کی رائے سنیں اور اس میں درستگی ہو، اس میں بہتری ہو، سنی جانی چاہئے، بیٹھ کر یہ بات کہنا ایسا نہیں ہو گا میں سمجھتا ہوں یہ بات نامناسب ہے۔ آئین کے اندر دیا گیا طریقہ کار موجود ہے اس کے تحت کیئر ٹیکر گورنمنٹ آئے گی۔ پاکستان کے قانون کے تحت کوئی نادہندہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتا۔ آج بھی وہی قانون ہے، پچھلے انتخاب میں بھی وہی قانون تھا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے عدالت عظمٰی کے اندر ایک ری ویو پٹیشن اپنی پرسنل ڈالی ہے۔ ایک ہی دن میں الیکشن کے سوال پر انہوں نے کہا ہم سیاسی قوتیں ہیں، میاں نواز شریف سے اختلاف اپنی جگہ ہمارا نظریاتی طور پر اختلاف ہے مگر جو فزیبلٹی ہے دو دن کے اندر اگر انتخاب ہو گا لا اینڈ آرڈر کی صروتحال بڑا پرابلم ہے۔ اخراجات بہت بڑا ایشو ہیں تو ایک دن میں الیکشن کرانا ریاستی اداروں کیلئے بھی لاءاینڈ آرڈر انفورسمنٹ ایجنسیوں کیلئے بھی آسان ہے تو اس پر بھی ہمیں توقع ہے اس پر بھی ہم اکٹھے ہونگے۔ الیکشن کے فری اینڈ فیئر انعقاد پر بھی ہم الیکشن کمشن کو امپاور کرنا چاہتے ہیں اس پر بھی اکٹھے ہیں اور یہ بات بڑی واضح طور پر طے شدہ ہے کہ اس دفعہ الیکشن کمشن کے ذریعے آزادانہ خودمختارانہ الیکشن ہونگے اور ایک ٹرانزنشن ہو گا، ڈیموکریٹک ٹرانزنشن ہو گا۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے ڈیرہ کائرہ پر عوامی مسائل سنے اور مختلف وفود سے ملاقات بھی کی۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...