عدالتی فیصلوں کی خلاف ورزی برداشت نہیں کریں گے: چیف جسٹس ‘ حکومتی عدم دلچسپی پر اظہار ناپسندیدہ کرتے ہیں‘ ججز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے جوڈیشل کمیٹی

لاہور (وقائع نگار خصوصی/ نوائے وقت نیوز) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ آئین کے تحت عوام کو فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ عدلیہ کو آئین کی محافظ ہونے کے ناطے بااختیار افراد کی طرف سے ماورائے آئین اقدامات اور اختیارات سے تجاوز پر نظر رکھنا ہوتی ہے تاکہ آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کو فروغ ملے۔ وہ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ اجلاس میں لاہو، پشاور، سندھ بلوچستان، اسلام آباد ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان، وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس، چیف جسٹس آزاد کشمیر اور رجسٹرارز نے شرکت کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کےلئے وکلاءکی تحریک نے عوام میں یہ امید پیدا کی کہ ملکی معاملات آئینی اقدار کے مطابق چلیں گے۔ عوام نے عدلیہ سے یہ امید وابستہ کر لی ہے کہ وہ ان کے حقوق کا تحفط کرے گی اور قصورواروں کو سلاخوں کے پیچھے بھیج کر معاشرے میں امن قائم کرے گی، عدلیہ پر عوام کے بڑھتے ہوئے اعتماد پر پرا اترنے کےلئے قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی نے معاشرے کے ہر طبقہ کو فوری اور سستا انصاف فراہم کرنے کےلئے نظام عدل سے منسلک تمام سٹیک ہولڈرز کی باہمی مشاورت سے جوڈیشل پالیسی مرتب کی تاکہ عوام کو بلا خوف و رعائت انصاف فراہم کیا جائے۔ اس پالیسی کا مقصد پرانے مقدمات کو نمٹانا بھی ہے۔ قومی جوڈیشل پالیسی کے نفاذ کے بعد ماتحت عدلیہ نے لاکھوں مقدمات کے فیصلے کئے جن میں 95 فیصد پرانے مقدمات تھے۔ مجھے عدلیہ کی اس کارکردگی پر فخر ہے اگر وکلاءکو قومی جوڈیشل پالیسی پر کوئی تحفظات ہیں تو وہ اس کا اظہارکر سکتے ہیں۔ عدلیہ کی طرف سے پرانے مقدمات کو جلد نمٹانے سے عوام کے عدلیہ کے حوالے سے مثبت تاثر کو تقویت ملی ہے۔ جوڈیشل پالیسی کے نتائج نہائت حوصلہ افزاءہیں عدلیہ نے اس سلسلے میں متعین ہدف کافی حد تک حاصل کر لیا ہے۔آئین کے تحت ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو فوری انصاف کی فراہمی کو عوام کا بنیادی حق سمجھ کر یقینی بنائے۔ اجلاس میں ماتحت عدلیہ کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا ہے، بالخصوص پرانے مقدمات کو نمٹانے کے حوالے سے قومی جوڈیشل پالیسی پر عمل درآمد کا جائزہ لیا جائے گا۔ سب کوآئین اور قانون کی پاسداری کرنی ہے۔ آئین سے کو ئی بالادست نہیں۔ پنجاب، سندھ اور خیبر پی کے میں عدلیہ کی کارکردگی شاندار ہے مگر بلوچستان میں دیگر صوبوں کی طرح نارمل حالات نہیں۔ جان و مال کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ مختلف حصوں میںکسی خاص وجہ سے ٹارگٹ کلنگ کی جا رہی ہے۔ خیبر پی کے وکلاءکو قتل کیا جا رہا ہے۔ وکلاءاورجوڈیشل افسروں کو سکیورٹی فراہم کی جائے۔ امید ہے عدلیہ آئین کے مطابق میرٹ پر فیصلے کرے گی۔انصاف کی فراہمی کے اقدامات میں تیزی لائی جائے گی۔گزشتہ پانچ سال میں عدلیہ کی کارکردگی میں خاطر خواہ بہتری آئی۔ عوام کا عدلیہ پر اعتماد بڑھا۔ سستا اور فوری انصاف ہر شہری کا حق ہے۔ انصاف کی فراہمی ان کی اولین ترجیح ہے۔ عدلیہ جوڈیشل پالیسی کے ذریعے انصاف کی فراہمی کےلئے کوشاں ہے۔ عدلیہ آئین کی محافظ ہے۔ اس بات کا مطالبہ کیا گیا تھا کہ جوڈیشل افسروں کی تعداد بڑھائی جائے مگر حکومت نے آٹھ ماہ گذرنے کے بعد بھی عمل نہیں کیا۔ خیبر پی کے میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج پر حملہ ناقص سکیورٹی کی وجہ سے ہوا۔ ججوں اور وکلاءکا تحفظ بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔اجلاس میں نیشنل جوڈیشل پالیسی کے تحت ضلعی عدالتوں میں زیر التواءپرانے کیسوں کو نمٹائے جانے کے حوالے سے ضلعی عدلیہ کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی نے تحقیقاتی ایجنسیوںکی طرف سے بروقت چالان جمع کرانے کی کارکردگی اور جیلوں کی ماہانہ معائنہ رپورٹ کا بھی جائزہ لےا گیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کوئی بھی آئےن سے بالاتر ہے نہ ہی کسی کا غےرآئےنی اقدام برداشت کےا جائےگا‘ ہم سب تک انصاف پہنچانا چاہتے ہیں اور اس کیلئے جو کچھ بھی کرنا پڑا کرینگے‘ دستور کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں‘ تمام اہم مقدمات کے فیصلے آئین اور قانون کے مطابق کئے ہیں، آئندہ بھی کئے جائیں گے‘ قومی جوڈیشل پالیسی سے انصاف کی فراہمی میں مدد ملی ہے اس حوالے سے بارز کا بھی انتہائی اہم کردار ہے۔ چیف جسٹس نے تمام ججز کو انصاف کی فراہمی کیلئے اقدامات مزید تیز کرنے کی ہدایت کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عوام کو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کے حوالے سے بہت سی توقعات ہیں، عدلیہ بھی جوڈیشل پالیسی کے تحت انصاف کی فراہمی کیلئے قوم کی توقعات پر پورا اتر رہی ہے، تمام عدالتوں میں انصاف کی فراہمی میں اقدامات کو مزید تیز کیا جائیگا، انصاف کی راہ میں کسی بھی جگہ کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی، پاکستان میں کوئی چھوٹا اوربڑا آئین و قانون سے بالا تر نہیں اور عدلیہ نے تمام اہم اور بڑے مقدمات میں کسی بھی دباﺅ کے بغیر آئین اور قانون کو سامنے رکھ کر فیصلے کئے ہیں اور آئندہ بھی آئین اور قانون کے مطابق ہی تمام فیصلے کئے جائیں گے۔ عدلیہ آئین کی محافظ ہے اور کسی کو بھی غیرآئینی اقدام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، ہر صورت ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جائیگا، انصاف کی فراہمی کیلئے عدلیہ کردار ادا کر رہی ہے، عدلیہ اپنی آئینی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ ہے اور اسی کے تحت ہم عوام کو سستا اور فوری انصاف فراہم کر رہے ہیں اور انصاف کی فراہمی کیلئے مزید اقدامات کئے جائیں گے، محدود وسائل کے باوجود انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جا رہا ہے، جوڈیشل پالیسی کی وجہ سے ماتحت عدلیہ میں بہتری آئی، میرٹ پر فیصلوں کے باعث عوام میں عدلیہ کا احترام بڑھا ہے۔ آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں۔ عدالتی فیصلوں کی خلاف ورزی کسی صورت برداشت نہیں کی جائیگی۔ تمام فیصلے آئین اور قانون کے مطابق ہی ہوں گے۔ ججوں اور وکلاءکی سکیورٹی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ خیبر پی کے میں ایڈیشنل جج پر حملہ ناقص سکیورٹی کی وجہ سے ہوا۔ کسی خاص وجہ سے لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ کی جا رہی ہے۔ عوام کو عدلیہ سے بہت توقعات ہیں۔ مقدمات کے فیصلے آئین اور قانون کے مطابق کئے گئے۔ آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے کیلئے عدلیہ پُرعزم ہے۔ گزشتہ سال میں عدلیہ کی کارکردگی میں خاطرخواہ بہتری آئی۔ وسائل کے اندر رہ کر انصاف کی فراہمی کیلئے پُرعزم ہیں۔ کسی خوف یا رعایت کے بغیر آئین و قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں۔ کراچی اور خیبر پی کے میں وکلاءکو قتل کیا جا رہا ہے۔ سکیورٹی کی ذمہ داری ریاست کی ہے۔ آن لائن کے مطابق چیف جسٹس نے کہاکہ قومی جوڈیشل پالیسی تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت شامل ہے، خوف اور رعایت کے بغیر آئین کی حکمرانی چاہتے ہیں، محدود وسائل کے باعث مقدمات میں بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ ثناءنیوز کے مطابق انہوں نے کہاکہ ریاستی اداروں سے آئین پر عملدرآمد کرانا اور غیرآئینی اقدامات کو روکنا عدلیہ کی ذمہ داری ہے، اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
لاہور (نوائے وقت رپورٹ) قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ حکومتی عدم دلچسپی پر اظہار ناپسندیدگی کرتی ہے، حکومت کو اعلیٰ ترین کمیٹی کی سفارشات کی عزت کرنی چاہئے۔ حکومت فوری طور پر ججز کی تعداد میں اضافہ کرے، ججز کی سکیورٹی کو یقینی بنائے، ریٹائرڈ ججز نے ایسی ملازمتیں قبول کر لی ہیں جو ان کے شایان شان نہیں۔ کمیٹی نے ضلعی عدالتوں کی کارکردگی اور زیر التوا مقدمات کا جائزہ لیا۔ عدالتی افسروں پر دہشت گردی کے حملوں کا بھی جائزہ لیا۔ کمیٹی نے کہا کہ صوبائی حکومتیں جوڈیشل افسروں کو سکیورٹی فراہم کریں، فوجداری مقدمات میں چالان بروقت پیش نہ کرنے پر کمیٹی نے تشویش کا اظہار کیا۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ کی کارکردگی کے باعث لوگوں کا عدلیہ پر اعتماد بڑھا ہے، پولیس کی طرف سے ایف آئی آر درج نہ کرنے کا بھی نوٹس لیا گیا۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...