طالبان کا بھی مذاکرات کیلئے پانچ رکنی مذاکراتی کمیٹی کا اعلان اور اس کمیٹی کی نمائندہ حیثیت پر ابہام… اگر طالبان کسی معاہدے کو توڑیں گے تو کیا مجوزہ کمیٹی اس کی ذمہ داری قبول کرے گی؟

کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لئے پانچ رکنی کمیٹی کے ناموں کا اعلان کردیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے بتایا کہ تحریک طالبان کی طرف سے عمران خان، پروفیسر ابراہیم، مولانا عبدالعزیز، مفتی کفایت اللہ اور مولانا سمیع الحق حکومتی ٹیم کے ساتھ مذاکرات کرینگے۔ شاہد اللہ نے ان پانچوں شخصیات کو طالبان کا حصہ قرار دینے سے گریز کیا اور کہا کہ یہ لوگ ہماری طرف سے حکومتی مذاکراتی ٹیم سے مذاکرات کریں گے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق طالبان نے ان سیاسی شخصیات کو ممکنہ طورپر اس لئے نامزد کیا ہے کہ یہ لوگ فوری طور پر اسلام آباد، پشاور یا ملک کے کسی بھی مقام پر مذاکرات کرنے کی پوزیشن میں ہیں جبکہ مذاکرات شروع ہونے کے بعد یہ لوگ لازمی طور پر طالبان سے بھی رابطہ کریں گے۔ ترجمان طالبان نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ طالبان کی جانب سے ان لوگوں کو حکومتی مذاکراتی ٹیم میں شامل کرنے کا تقاضہ کیا گیا ہے۔ ان کے بقول طالبان شوریٰ کے اجلاس میں مذاکرات کا فیصلہ کیا گیااورمتذکرہ شخصیات کو اپنی مذاکراتی ٹیم کے طورپرنامزد کیا گیا۔ترجمان طالبان نے کہا کہ ہم خلوص نیت کے ساتھ مذاکرات پر تیار ہیں جس کے لئے امیر طالبان تحریک ملا فضل اللہ کے حکم پر حکومت کے ساتھ مذاکرات کا اعلان کرکے تین رکنی مشاورتی کمیٹی کے طالبان کے مختلف گروپوں کے ساتھ مشاورتی اجلاسوں کا آغاز کیاگیا ہے اور75فیصد گروپوں کے ساتھ مشاورت ہوچکی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان شوریٰ نے 22شرائط کی فہرست بھی تیار کرلی ہے۔
طالبان کے نامزد پانچ ارکان میں سے صرف عمران خان کی جانب سے اس کمیٹی کے بارے میں لا علمی کا اظہار کیا گیا ہے جن کے بقول کالعدم تحریک طالبان کو مذاکرات کے لئے خود اپنے نمائندے مقرر کرنے چاہئیں جبکہ دیگر چاروں ارکان نے متذکرہ کمیٹی کے لئے طالبان کی جانب سے اپنے ساتھ ہونے والی مشاورت کی تصدیق بھی کی ہے اور  مذاکرات کی ذمہ داری قبول کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے جس سے بادی النظر میں تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ مذاکرات کے لئے حکومتی کمیٹی کی تشکیل کے بعد طالبان نے بھی پہلی بار مذاکرات کے ایشو پر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ طالبان کی جانب سے خود کمیٹی میں نہ آنے کا مقصد کسی متوقع خطرے سے خود کو بچانے اور خود منظر عام پر نہ آنے کا بھی ہوسکتا ہے۔اس لئے طالبان کی جانب سے مذاکرات کے لئے خلوص نیت کے اظہار کے باوجود تشکیک کے کئی پہلو موجود ہیں۔ اگر تو طالبان کی جانب سے مذاکرات کے لئے شرائط کی 22نکاتی فہرست تیار کرنے کی خبر درست ہے تو ان شرائط کی بنیاد پر مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھنے کی ہرگز توقع نہیں کی جاسکتی جبکہ یہ بھی واضح نہیں کہ شرائط کی متذکرہ فہرست طالبان کی نامزد کمیٹی کے ارکان کے ساتھ مشاورت سے مرتب کی گئی ہے یا اس میں حکیم اللہ محسود کی پیش کردہ شرائط کا ہی اعادہ کیا گیا ہے۔اگر طالبان کی مجوزہ مذاکراتی کمیٹی بھی ان شرائط پر متفق ہوگی تو اس سے اس مائنڈ سیٹ کی تصدیق ہوجائے گی جو انتہا ء پسندانہ سوچ پر مبنی اپنے ایجنڈے کو بندوق اور بارود کے زور پر مسلط کرنے کی راہ پر گامزن ہے جبکہ مجوزہ کمیٹی کی جانب سے ان شرائط سے لاتعلقی اس کمیٹی کی نمائندہ حیثیت کو مشکوک بنادے گی۔ اسی طرح اس مجوزہ کمیٹی کی حیثئت اور دائرہ کار بھی ابھی تک واضح نہیں۔ اگر کل کو مذاکرات کے کسی مرحلہ پر طالبان کی جانب سے دو طرفہ مذاکرات میں طے پانے والے کسی معاہدے کی خلاف ورزی کی جاتی ہے تو کیا طالبان کی نامزد کمیٹی اس کی ذمہ داری قبول کرے گی یا  اسے طالبان کا ذاتی فعل قرار دے گی، بے شک اس کمیٹی کے ارکان کی غالب اکثریت ان سیاسی اور دینی قائدین پر مشتمل ہے جو طالبان کے لئے نرم گوشتہ رکھتے ہیں جبکہ پروفیسر ابراہیم نے تو یہ بھی واضح کردیا ہے کہ طالبان کی مذاکراتی کمیٹی میں ان کی شمولیت کی توثیق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے خود کی ہے۔اسی طرح مفتی سمیع الحق اور مفتی کفائت اللہ پہلے بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے حکومت کی معاونت کا عندیہ دیتے رہے ہیں جبکہ مولانا عبدالعزیز جو جامعہ حفصہ کے مہتمم ہیں، طالبان کے ساتھ ہمہ وقت رابطے میں رہتے ہیں۔اس کے باوجود طالبان کی نامزد مذاکراتی کمیٹی کے یہ ارکان خود کو طالبان میں شامل قرار دے دیں تو ہی اس کمیٹی کی نمائندہ حیثیت بن سکتی ہے تاہم ابھی تک خود طالبان ان ارکان کو اپنا حصہ قرارنہیں دے رہے چنانچہ ابہام کی اس فضا میں حکومتی کمیٹی بھی گومگو میں رہے گی کہ ان کا طالبان کی نامزد کردہ مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ مذاکراتی عمل کا آغاز کرنا سود مند بھی ہوسکتا ہے یا نہیں اور آیامذاکراتی کمیٹی کے یہ لوگ مذاکرات میں کئے گئے کسی معاہدے یا فارمولے کو طالبان سے تسلیم بھی کروا پائیں گے یا نہیں۔اگرچہ ملک کے 15جید علماء کرام نے بھی حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کے لئے ہونے والی پیش رفت کا خیر مقد م کیا ہے اور دونوں سے فوری طورپر ایک دوسرے کے خلاف کارروائیاں بند کرنے کی اپیل کی ہے۔ تاہم مذاکرات کی بیل تبھی منڈھے چڑھ سکتی ہے جب مذاکرات کے پیرامیٹرز پر دونوں جانب سے کسی قسم کا ابہام موجود نہ ہو۔ بادی النظر میں تو حکومت بھی مذاکرات کے لئے سنجیدہ اور مخلص نظر آتی ہے مگر حکومتی، سیاسی اور عسکری قیادتوں کی باہمی مشاورت سے سکیورٹی فورسز کے اپریشن کی حکمت عملی طے ہونے کے بعد امن کو ایک اور موقع دینے کی خاطر وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے مذاکراتی ٹیم کی تشکیل کے اعلان سے یہ شکوک و شبہات بھی موجود ہیں کہ کہیں اپریشن کے مناسب وقت کے انتخاب کی خاطر تو مذاکرات کی صورت میں موجودہ وقت گزارنے کی حکمت عملی طے نہیں کی گئی۔ بے شک وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں سمیت بعض حکومتی حلقے طالبان کے خلاف اپریشن کے حق میں نہیں ہیں اور اس حوالے سے ان کی جانب سے تحفظات کا اظہار ہوتا بھی رہا ہے۔ اس کے باوجود حکومتی اور عسکری قیادتوں میں یہ متفقہ سوچ موجود ہے کہ بندوق اور بارود کے زور پر حکومتی ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کرنے والوں کا ان کی زبان میں جواب نہ دے کر نہ صرف حکومتی کمزوری کو اجاگر کیاجائیگا بلکہ حکومتی اتھارٹی چیلنج کرنے والوں کے حوصلے بھی بڑھائے جائیں گے اس لئے دہشت گردی کی وارداتوں میں بے گناہ انسانوں کی جانوں سے کھیلنے والے عناصر کسی رو رعائت کے مستحق نہیں اور حکومتی ریاستی طاقت کا استعمال کرکے انہیں کیفر کردار تک پہنچانا ضروری ہے، اس متفقہ سوچ کی موجودگی میں تو مذاکرات کی ایکسر سائز بیکار ہی نظر آتی ہے جبکہ اس سے طالبان گروپوں کو پھر سے منظم ہونے کا موقع مل سکتا ہے ۔اگر طالبان فی الواقع مذاکرات کے ذریعے امن کی راہ پر آنے میں مخلص اور سنجیدہ ہوں تو ان کی جانب سے دہشت گردی کی کارروائیاں بھی روک دی جائیں اور مذاکرات کے لئے کسی قسم کی شرائط بھی پیش نہ کی جائیں مگر وہ نہ صرف 22شرائط مرتب کرچکے ہیں بلکہ دہشت گردی کی کارروائیاں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں اور گزشتہ روز بھی شدت پسندوں نے پشاور میں امن لشکر پر حملہ کیا ہے جس میں چار رضا کار جاں بحق ہوگئے ہیں،اسی طرح چار سدہ میں بھی ایف سی کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا ہے اور نوشہرہ میں پولیس موبائل پر ریموٹ کنٹرول بم حملہ کیا گیا ہے جس میں دو اہلکار زخمی ہوگئے ہیں۔
بے شک امن کی بحالی ہماری ضرورت ہے لیکن مذاکرات کی بنیاد پر حکومتی ریاستی اتھارٹی کے کمزور ہونے کا تاثر پیدا ہوگا تو پھر ملک کو دہشت گردی کے ہاتھوں کبھی امن نصیب نہیں ہوسکے گا۔اس تناظر میں حکومت کو طالبان کی نامزد مذاکراتی کمیٹی سے کسی قسم کا رابطہ کرنے سے پہلے اس کی نمائندہ حیثیت کی ضرور تصدیق کرالینی چاہئے ،جب کمیٹی کے ارکان مذاکرات کے دوران طالبان کی جانب سے دہشت گردی کی کسی واردات کی ذمہ داری قبول کرکے اس کی خود سزا بھگتنے کو تیار ہوں تو ہی اس کمیٹی کی نمائندہ حیثیت کی تصدیق ہوسکے گی بصورت دیگر دونوں اطراف کی کمیٹیوں کی تشکیل ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کی ایکسر سائز ہی سمجھی جائے گی۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...