دل صاحب ”اوصاف“ سے انصاف طلب ہے....؟

ربیع الاول کا روشن مبارک اور خوشبو لٹاتا مہینہ رخصت ہوا....
پاکستان کے ہر شہر میں جشن عید میلاد النبی اور چراغاں نظر آتا رہا۔ دل کو اچھا لگتا رہا....
نظروں کو لُجھاتا رہا....
بے شک ربیع الاول بہت سارے دوسرے مہینوں کی طرح حرمت والا مہینہ ہے۔ اور حرمت والے مہینوں کے لئے تاریخ کے اندر بہت سی ہدایات آئی ہیں....
اور وہ جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر انسانیت سوز حرکات کر رہے ہیں کیا ان کو معلوم ہے کہ حرمت والے مہینوں میں، جنگ و جدل، ظلم و بربریت، درندگی، نا انصافی ممنوع ہے۔ مگر اس مہینے میں بھی خودکش حملے ہوتے رہے، بے گناہ اور معصوم شہری مرتے رہے۔ مائیں اور بچے چیختے رہے۔ بہت سے گھر اجڑتے رہے۔ بہت سے چراغ گل ہوتے رہے۔
وہ جو اپنے آپ کو اسلام کا علمبردار کہتے ہیں۔ وہ جنہوں نے اسلامیوں والے حلیئے
 بنا رکھے ہیں....
وہ جنہیں نفاذ اسلام کا شوق ہے۔ وہ بتائیں کہ انہیں ربیع الاول کا احترام تھا کہ نہیں....
وہ جو ٹارگٹ کلنگ کرتے رہے۔ جنہوں نے کراچی کو جہنم بنا کے رکھا۔ جنہوں نے خیبر پختونخواہ میں آگ لگائی۔ جنہوں نے مسجدوں کے نمازیوں کو شہید کیا.... جنہوں نے گھر جاتے راہ گیروں کو موت کے حوالے کیا۔ خدا کے واسطے بتاﺅ ۔ وہ کون تھے؟ کیا وہ مسلمان تھے کیا وہ کلمہ گو تھے کیا انہوں نے چودہ سو سال کی تاریخ کا مطالعہ کر رکھا ہے۔ کیا انہیں معلوم ہے دنیا میں اسلام کس طرح سے پھیلا تھا....
وہ کون لوگ ہیں۔ جو ماﺅں کے لعل گوہر بہلا پھسلا کر لے جاتے ہیں۔ اور انہیں جنت کا لالچ دے کر درندگی کی تربیت دیتے ہیں.... جن کو قاتل جیکٹ پہنا کر گھروں کو برباد کرنے کے لئے بھیجتے ہیں....
کوئی ہے جو ان سے پوچھ سکے۔ وہ کس اسلام کی بات کرتے ہیں۔ وہ کس ملک سے آئے ہیں۔ ان کا ایجنڈا کیا ہے ان کے دل میں کیا ہے ان کے لبوں پر کیا ہے....؟
اور اگر وہ ایسی مذموم حرکتیں نہ کرتے تو پھر پاکستان بھی واشگاف لفظوں میں کہہ دیتا کہ حرمت والے مہینے میں ڈرون حملے نہیں ہونگے۔
ہے کوئی پاکستان کے اندر جو بآواز بلند کہہ سکے.... کہ رک جاﺅ .... ماہ ربیع الاول شروع ہو گیا ہے برکتوں، رحمتوں اور روشنیوں کا مہینہ....
اس مہینے میں جھوٹ نہ بولنا، ذخیرہ اندوزی نہ کرنا، ملاوٹ سے پرہیز کرنا، دریا دلی کا اظہار کرنا.... اقرباءکے حق ادا کرنا، قرض ادا کر دینا، سود نہ لینا.... اور دیکھو لوگو: اپنے نبی محترم کی پیروی کرنا۔ بس ایک مہینے کے لئے سہی‘ محتاجوں کے دروازے کھٹکھٹا کر ان کی مدد کرنا عورتوں کا احترام کرنا چھوٹی بچیوں کو اپنی گودیوں کے پھول سمجھنا ورنہ یہ پکی پکائی دیگیں محض انگارے بن جائیں گی .... اور روشنیاں کام نہ آئیں گی اگر دل روشن نہ ہوا۔
چھوٹی چھوٹی بچیوں کے ساتھ سفاکانہ اور حیوانی برتاﺅ کرنے کی خبریں باقاعدہ آتی رہیں.... تو کیا ان کے لئے دنوں اور راتوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا....
یہ کون لوگ ہیں جنہوں نے اپنی مرضی کا ایک مذہب بنا رکھا ہے۔ جس کو چاہیں جو عذر دے کر قتل کر دیں یا غائب کر دیں۔
یہ کون لوگ ہیں جنہوں نے پورے ملک کو یرغمالی بنا کے رکھا ہوا ہے۔ ظلم کو مذہب کا نام دیتے ہیں۔ خود انصاف نہیں کرتے دوسروں سے انصاف کے طلبگار رہتے ہیں۔
”شہر مقتل بن رہے ہیں خشک ہر رودِ فرات“
اور حکومتیں ہیں کہ دم سادھے بیٹھی ہیں
مذاکرات ہیں کہ شرائط کی رسیوں میں باندھے جا رہے ہیں یہ پاکستان ہے یہ مسلمانوں کا ملک ہے۔ نسل درنسل مسلمان رہتے ہیں۔ کوئی باہر سے یہ بتانے کے لئے آئے گا کہ وہ کیسے مسلمان ہیں تو پہلے وہ خود بہتر مسلمان بن کر دکھائے.... ہنستی بستی آبادیوں کو آگ لگانے والے کیا مسلمان ہیں۔ ایسے لوگوں کو تو انسان بھی نہیں کہا جاتا۔
جن گھروں کے چراغ بجھ گئے وہ تو قیامت تک تاریک رہیں گے ان کا حساب کون چکانے آئےگا۔
اب خیر سے دو طرفہ ٹیمیں بن گئی ہیں اب دونوں کے درمیان مذاکرات چلیں گے کب تک چلیں گے....
مگر عوام کو فوری ریلیف درکار ہے امن درکار ہے گھر کا سکون درکار ہے۔
آخر حکومتیں اتنی بے بس کیوں ہیں ....؟
گھر کے گھر اجڑ گئے.... عوام فیصلے کی سولی پر لٹکے ہیں
اب حد سے بڑھی جاتی ہے حالات کی تلخی
اس زہر میں کچھ شہد ملا کر کیوں نہیں دیتے؟
ملک بھی آپ کا ....
زمین بھی آپ کی ....
وسائل بھی آپ کے ....
قانون بھی آپ کا ....
اس کے باوجود آپ بے بسی کا اظہار کر رہے ہیں۔ تو پھر آپ کو حکومت کرنے کا کوئی حق بھی نہیں ہے....
جس زبان میں بات کی جاتی ہے۔
جو اب بھی اسی زبان میں دیا جاتا ہے۔ پاکستان کو بھری دنیا میں تنہا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے....
کون سا اہم علاقہ اور مقام ہے جہاں حملہ نہیں کیا گیا۔ زیارت میں حضرت قائداعظمؒ کی رہائش گاہ ابھی تک اپنی بے بسی پر آنسو بہا رہی ہے۔ بدحالی دور نہیں ہوتی۔ بحالی کا موسم کب آئے گا۔ لوگوں کے اعصاب جواب دے رہے ہیں اور وہ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں
تجھ سے فریاد ہے اے گنبد خضریٰ والے
کعبے والوں کو ستاتے ہیں یہ کعبے والے

ای پیپر دی نیشن