اقوام متحدہ کا کمشن بینظیر کے قتل کے بارے میں سوال کا جواب نہ دے سکا، ہیرالڈو نے کتاب لکھ دی

نیویارک (نوائے وقت رپورٹ) بے نظیر بھٹو کا قتل آج بھی معمہ ہے، 2010ء میں اقوام متحدہ کے کمشن نے تحقیقاتی رپورٹ جاری کی تو اس میں کچھ واضح نہ ہوا، البتہ پاکستان میں تحقیقات کے دوران قدم قدم پر رکاوٹوں اور مسائل نے کمشن ارکان کو حیران و پریشان کئے رکھا، کمشن کے سربراہ ہیرالڈو منوز نے اپنی کتاب میں ان تجربات سے پردہ اٹھا دیا۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کیلئے بننے والا اقوام متحدہ کا کمشن اس سوال کا جواب تو نہ دے سکا کہ محترمہ کا قتل کس نے کیا تاہم تحقیقات کے دوران رکاوٹوں اور پراسرار واقعات نے کمیشن ارکان کو خفیہ اداروں کی رسائی اور دانستہ و نادانستہ طور پر شواہد ضائع کئے جانے پر حیرت زدہ کر دیا، انہیں واقعات نے کمشن کے سربراہ ہیرالڈو منوز کو کتاب لکھنے پر مجبور کیا جس کا عنوان ’’Benazir Bhutto's Assasination and Politics of Pakistan‘‘ ہے۔ اقوام متحدہ کے کمیشن کو پاکستان آمد سے پہلے دھمکیاں موصول ہونا شروع ہو گئی تھیں، کمیشن کی پہلی ملاقات رحمان ملک سے ہوئی، جنہوں نے بتایا کہ چار ملزمان گرفتار کئے جا چکے ہیں اور کمیشن ارکان کیلئے تیار کی گئی تحقیقات کے خلاصے اور مقدمہ کی کارروائی پر مبنی خصوصی رپورٹ بھی دی۔ کمیشن ارکان نے رپورٹ کو ایک طرف رکھ کر اپنی تحقیقات کا آغاز کیا تو اندازہ ہوا کہ ان کی نقل و حرکت اور ملاقاتوں کے ایجنڈے کی معلومات خفیہ نہیں رہ پاتیں اور کبھی پروازیں پراسرار طور پر منسوخ ہونے کی وجہ سے انہیں ملاقاتیں ملتوی کرنا پڑتیں، اقوام متحدہ کمیشن کی رپورٹ کی طرح منوز نے اپنی کتاب میں بھی ڈھیروں سوالات اور شکوک و شبہات ظاہر کئے گئے ہیں، جن کا اظہار پاکستان کے عام شہری بھی کرتے نظر آتے ہیں، کتاب میں اپنی بات کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے ہیرالڈو منوز نے لکھا کہ بے نظیر کا قتل سپینش ڈرامہ کے کرداروں کی یاد دلاتا ہے جس میں ایک بادشاہ کے قتل پر جب دیہاتیوں سے سوال کیا جاتا ہے کہ یہ کام کس نے کیا تو ہر کوئی جواب میں یہی کہتا ہے کہ  گائوں والوں نے اسے مار دیا، منوز نے لکھا کہ القاعدہ نے بے نظیر کے قتل کا حکم دیا، جس پر عملدرآمد پاکستانی طالبان نے کیا، جنہیں ممکنہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کے عناصر نے مدد یا اس کام پر اکسایا، مشرف حکومت نے مطلوبہ سکیورٹی نہ دے کر جرم میں اعانت کی اور محترمہ کی ٹیم انہیں فول پروف سکیورٹی دینے میں ناکام ہوئی اور پاکستانی سیاسی اداکاروں نے تمام صورتحال سے صرف نظر کئے رکھا۔

ای پیپر دی نیشن