طالبان اور ”نیا پاکستان“ طلب اور تڑپ

Feb 03, 2014

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی

عرفان صدیقی کو ہماری ایک کالم نگار نے نوائے وقت کا سابق کالم نگار کہا ہے جو اچھا لگا ہے۔ ہر اخبار میں نامور اور نمایاں کالم نگار نوائے وقت سے گئے ہوئے ہیں۔ یہ نوائے وقت کا جینوئن کریڈٹ ہے۔ عرفان صدیقی اور باقی تینوں حضرات رحیم اللہ یوسف زئی، میجر (ر) عامر اور رستم مہمند پر کسی نے خاص اعتراض نہیں کیا۔ دو آدمیوں پر طالبان نے اعتراض کیا ہے۔ انہوں نے اپنی طرف سے امن کمیٹی میں پانچ آدمیوں کو شامل کرنے کی تجویز دی ہے۔ ان کے مطالبے کبھی نہ ختم ہونے والے ہیں۔ سمجھ نہیں آتی کہ وہ طالبان ہیں یا ”مطالبان“ ہیں۔ مولانا سمیع الحق عمران خان پروفیسر ابراہیم مفتی کفایت اللہ اور مولانا عبدالعزیز (لال مسجد والے) حیرت ہے کہ نواز شریف نے پہلے خود مولانا سمیع الحق کو طالبان سے معاملات سدھارنے کے لئے درخواست کی تھی۔ اب انہیں امن کمیٹی میں شامل نہیں کیا گیا تو اس کی کوئی وجہ تو ہو گی۔ طالبان نے پہلا نام ان کا تجویز کیا ہے تو اس کی کیا وجہ ہے؟ پانچوں لوگ آپریشن کی بجائے مذاکرات کے حق میں ہیں۔ حکومتی امن کمیٹی میں چاروں لوگ مذاکرات کے خلاف نہیں ہیں تو پھر جھگڑا کیا ہے۔ جھگڑا کوئی نہیں ہے مگر جھگڑالو لوگ دونوں طرف ہیں۔ ”تیسری“ طرف بھی کچھ لوگ ہیں۔ نجانے وہ کیا چاہتے ہیں۔ نجم سیٹھی طالبان کی تجویز کے حوالے سے مذاق اڑاتے رہے ہیں۔ شاید انہیں خبر ہے کہ آپریشن تو ہو گا۔ کچھ بے رحم لوگ آپریشن کی بجائے ”پوسٹ مارٹم“ کے حق میں ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ فوج، آئی ایس آئی اور وزارت خارجہ کو بھی کمیٹی میں شامل کریں۔ یہ مذاکرات کسی دوسرے ملک کے ساتھ تو نہیں ہیں؟ شاید مولانا کا خیال ہو کہ بیرون ملک سے جو اہلکار آتے ہیں وہ سیاسی قیادت کے علاوہ عسکری قیادت سے بھی بات کرتے ہیں۔ اور یہ ”بات“ الگ الگ ہوتی ہے لیکن مولانا یہ سوچیں کہ انہیں نہ حکومت نے کمیٹی میں رکھا ہے نہ ان کا نام طالبان کی تجویز میں ہے۔ پہلے بھی حکومت نے مولانا سمیع الحق پر اعتبار کیا مولانا فضل الرحمن پر نہیں کیا۔ اس بار مولانا نے حکومت میں شامل ہونے کی جلدی کی ہے ورنہ شاید ان کا نام کمیٹی میں ہوتا۔ طالبان سے امن کے لئے بھی فوج کو ملوث کرنے کی کوشش اچھی نہیں ہے۔ ایک جملہ ان کا اچھا ہے ”جنگ بندی سے پہلے زبان بندی کرو“۔ اس کا اطلاق خود ان پر نہیں ہوتا۔ یہ کیسا دستور زباں بندی ہے اور طالبان کسی دستور کو نہیں مانتے۔ یہ سب ”بندیاں“ پاکستان کے لئے ہیں تو مولانا طالبان کو بھی کچھ سمجھائیں؟ قبائلی روایات کو پاکستانی سمجھ لیں تو بات بن جائے گی۔
اس حوالے سے گورنر پنجاب چودھری سرور نے خوب بات کی ہے۔ یہ ایک پازیٹو سیاستدان ہی کر سکتا ہے۔ ثابت ہوا کہ حکومت میں بھی پازیٹو سوچ کے لوگ ہو سکتے ہیں۔ چودھری صاحب نے کہا کہ طالبان ہم سے بڑے سیاستدان ہیں۔ امریکہ کمزور ملکوں میں کہیں آمریت کی حمایت کرتا ہے کہیں جمہوریت کی حمایت کرتا ہے۔ تقریباً سب ملکوں میں اور پاکستان میں وقفے وقفے سے دونوں کی حمایت کرتا ہے۔ ہمارے جرنیل اور سیاستدان اسے بخوبی قبول کرتے ہیں۔ امریکہ دوستوں اور دشمنوں سے ایک جیسا فائدہ اٹھاتا ہے۔ سکھاتا تو انہیں بھی امریکہ ہے جو ہمارے حکمرانوں کو پڑھاتا ہے۔ ”صدر“ زرداری کی حیرت انگیز سیاست پر ابھی تک امریکہ کی پرچھائیاں ہیں۔ جنرل مشرف اور طالبان کے خلاف خود صدر زرداری نے کارروائی نہیں کی مگر نواز شریف کو اکسا رہا ہے اور ہلاشیری بھی کر رہا ہے۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے بھی طالبان کے لئے مذاکرات اور امن کمیٹی کی حمایت کی ہے اور کہا کہ زیادہ وقت نہیں لگنا چاہئے۔ پہلے بھی نواز شریف نے مذاکرات کے لئے کئی مہینے لگا دیئے ہیں۔ شاید اس لئے وہ قومی اسمبلی میں بھی نہ آ سکے۔ امن کمیٹی کے اعلان کے بعد وہ اصل اپوزیشن لیڈر اور طالبان خان یعنی عمران خان کے پاس گئے۔ دونوں میں مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا۔ یہ مسکراہٹیں نواز شریف اور زرداری کے درمیان تبادلے میں بدل جاتی ہیں مگر مسکراہٹیں تو ہیں۔ جلد ہی ایک جیسی ہو جائیں گے۔ انشااللہ!
عمران خان کا لانگ مارچ شمالی وزیرستان نہ جا سکا تھا۔ اب نوائے وقت کے سابق کالم نگار عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ ہم شمالی وزیرستان بھی جانے کو تیار ہیں۔ عرفان صدیقی کی جذبے سے بھری ہوئی باتیں کوئی رنگ لائیں گی۔ ہم ان کے لئے دعا گو ہیں۔ طالبان کی طرف سے بیان پر عمران شش و پنج میں مبتلا ہیں مگر عرفان نے کہا کہ کوئی امن کمیٹی میں اچھے ارادے سے آتا ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔
عرفان نے کہا کہ میں ملا عمر سے بھی مل چکا ہوں۔ اصل ملاقات تو مولوی فضل اللہ سے اہم ہے۔ مولوی فضل اللہ کے سرپرست ملا عمر نہیں ہیں کوئی اور ہے۔ جو بھی ہے اسے سب جانتے ہیں۔ سوات سے فرار ہونے کے بعد وہ افغانستان میں تھا۔ اب بھی وہیں ہے۔ وہاں سے پاکستانی طالبان کو لائن دے رہا ہے۔ صدیقی صاحب نے یہ ٹھیک کہا ہے کہ ہمیں باریکیوں میں نہیں جانا چاہئے مگر معاملات کو باریک بینی سے دیکھنے کی ضرورت ضرور ہے۔ یہ بات بھی اچھی ہے کہ ہمیں حکومت نے مقرر کیا ہے مگر ہم حکومتی کمیٹی نہیں ہیں۔ طالبان کے 65گروپس ہیں مگر وہ متحد ہیں۔ ہمیں بھی اب متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ لگتا ضرور ہے کہ ہم بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے متحد ہو رہے ہیں۔ علماءکے لئے اتحاد کی بات کی ہے۔ البتہ سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا کو راضی کرنا ضروری ہے۔ انہیں نظرانداز کر کے مذاکرات کی کامیابی ممکن نہیں ہے۔
ایک بات بہت اہم اور غور طلب ہے کہ آخر طالبان نے عمران خان کو کیوں تجویز کیا ہے۔ طالبان سے مذاکرات کے حامی تو داڑھی منڈے بہت ہیں۔ عمران پانچوں لوگوں میں مختلف انسان ہیں۔ وہ یورپ میں پورے انگریز ہوتے ہیں۔ پاکستانی سیاستدان کے طور پر مسلمان ہیں۔ قائداعظم نے علاقہ غیر کو اپنا علاقہ بنایا تھا اور یہاں فوج رکھنے کی بھی اجازت نہ دی تھی وہ بھی داڑھی منڈے تھے، عاشق رسول تھے اور جدید زمانے کے تقاضوں کو جانتے تھے۔ پٹھان قائداعظم کے فرمان پر عمل کرتے رہے مگر جب ہمارے حکمرانوں نے قائداعظم کے فرمودات کو بھلا دیا تو پھر انہوں نے بھی اپنی راہ الگ کر لی۔ دونوں اگر قائداعظم کی بتلائی ہوئی راہ پر آ جائیں تو بات بن جائے گی۔ بات چیت بھی یعنی مذاکرات بھی کامیاب ہو جائیں گے۔ قائداعظم پیغمبراعظم کے راستے پر تھے۔ وہ رحمت اللعالمین ہیں۔ سارے زمانوں، سارے جہانوں سارے انسانوں کے لئے رحمت ہی رحمت ہیں۔ تو ہم جو عاشقان رسول بنتے ہیں تو پھر ایکدوسرے کے خلاف لڑتے ہیں۔ طالبان نئے زمانے کے تقاضوں کو سمجھیں اور ہم پرانے زمانے کی یادوں کو نہ بھلائیں تو جدید و قدیم کے امتزاج سے وہ قومی مزاج بن سکتا ہے کہ پورے دنیا والے حیران ہو جائیں۔ ہم پریشان ہونا چھوڑیں گے تو یہ ممکن ہو گا۔ عمران نے وزیرستان میں بہت پہلے کچھ وقت گزارا تھا۔ ایک کتاب لکھی ”غیرت مند مسلمان“۔ پہلے اس کا نام غیرمند پٹھان تھا۔ نجانے کس کے ڈراوے میں آ کے انہوں نے تبدیلی کی۔ اس کی تقریب پذیرائی میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ پٹھان فطری طور پر مسلمان ہوتا ہے۔ اس جملے کا ترجمہ بانو قدسیہ نے جمائما خان کو سنایا تو وہ بہت خوش ہوئی تھی۔ نیا پاکستان کا نعرہ عمران خان کا ہے۔
مجھے خوشی ہوئی کہ چودھری پرویز الٰہی نے حکومت کے اس اقدام کی حمایت کی ہے۔ اب حکومت بھی اس تعاون کو پوری اہمیت دے۔ چودھری صاحب کی یہ بات بھی اہم ہے کہ امن مذاکرات کے لئے ٹائم فریم بڑا ضروری ہے۔ نواز شریف نے چھوٹی چھوٹی باتوں پر سیاستدانوں کی لڑائیوں کو چھوڑ کر متحد ہو کر کوئی پروگرام بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ وہ پہل کریں۔ بات چل نکلے گی۔ صرف ٹی وی چینلز پر یہ مذاکرات نہ ہوتے رہیں۔ تجزیے اور گپ شپ اور بس۔ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے گا تو کوئی نتیجہ سامنے آئے گا۔ ورنہ کچھ لوگ ابھی سے کہہ رہے ہیں کہ مذاکرات کی کامیابی کی امید کم ہے۔ مگر مجھے امید ہے کہ طالبان کے ساتھ دل و جان سے معاملات طے کرنے کے بعد نیا پاکستان اور پرانا پاکستان یکجان ہو کر قائداعظم کا پاکستان بنے گا۔ پاکستان زندہ باد۔

مزیدخبریں