بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے
عمران خان کی تحریک انصاف کو کسی نے مسیحا سمجھا ہو یا نہ سمجھا ہو ، مگر خیبر پختونخواہ کے عوام نے اپنے دکھوں اور مصائب کا مسیحا جان کر انہیں ووٹ دیئے اور صوبے میں کامیاب بنایا۔ مگر تحریک انصاف دھاندلی کے خلاف تحریک اور وفاق کے خلاف دھرنوں میں ایسی الجھی کہ اس صوبے کو بھول گئی جس نے انہیں تبدیلی کا مسیحا جان کر اعتماد کیا۔ اس حقیقت کا اعتراف خود عمران خان نے چند روز قبل پشاور میں کیا کہ وہ خیبر پختونخواہ پر توجہ نہیں دے سکے اور اب وہ اپنی ساری توجہ اس صوبہ کو ماڈل صوبہ بنانے پر دیں گے۔ یہی حقیقت ہم گزشتہ بیس ماہ سے انہیں سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ وفاق میں وہ اپوزیشن ہیں مگر خیبر پختونخواہ میں ان کی اپنی حکومت ہے اور وہاں انہیں اپوزیشن کے بجائے حکومت کا طرزعمل اختیار کرنا ہو گا۔ کیونکہ وہاں کی عوام نے انہیں ووٹ دے کر صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت قائم کروائی ہے، یہ خیبر پختونخواہ کے عوام تھے جنہوں نے تحریک انصاف کے تبدیلی کے نعرے پر آنکھیں بند کر کے اعتبار کیا اور اب وہ تبدیلی کے نعرے کو حقیقت میں بدلتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس لیئے عمران خان کو اس تبدیلی کے نعرے کو ایک عملی شکل دے کر دکھانی ہو گی۔
عمران خان اگر خیبر پختونخواہ کو بدل دیتے ہیں تو یہ پورے پاکستان کے لئے ایک مثال بن جائے گی۔ مگر اس حقیقت کو سمجھنے میں پورے بیس ماہ کا قیمتی وقت ضائع کر دیا گیا۔ اس تاخیرکا نقصان خیبر پختونخواہ کی عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اس کا مظاہرہ میں نے لیڈی ریڈنگ اسپتال میں اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ لیڈی ریڈنگ اسپتال خیبر پختونخواہ کا سب سے بڑا اسپتال ہے مگر بدقسمتی سے یہ سب سے بدترین اسپتال کی عملی تصویر بنا ہوا ہے ، میرا ارداہ تھا کہ میں خیبر پختونخواہ کے تین چار اضلاع کے اسپتالوں پر ایک پروگرام کروں گی مگر پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال کو دیکھ کر ہی طبیعت صاف ہو گئی اور جو حالت وہاں مریضوں کی دیکھی اس کے بعد میری ہمت نہیں ہو سکی کہ میں خیبرپختونخواہ کے کسی اور اسپتال جا کر وہاں کے حالات عوام کے سامنے پیش کرتی۔ دہشت گردی کی جنگ میں سب سے زیادہ تباہی پشاور شہر نے دیکھی ہے۔ سب سے زیادہ دہشت گردی کے متاثرین لیڈی ریڈنگ اسپتال میں لائے جاتے ہیں اس لئے اس اسپتال میں سب سے زیادہ سہولتیں مہیا ہونی چاہیئے تھیں مگر وہاں کی صورتحال انتہائی افسوسناک اور مایوس کن دکھائی دی۔ سرجری وارڈ میں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ مریضوں کے لئے کمبل اور بیڈ تک میسر نہیں اس لیئے بہت سے مریض اپنے گھر سے یا کرائے کی چارپائیاں لے کر آتے ہیں۔ سوچیئے جب کوئی اسپتال مریضوں کو بیڈ جیسی بنیادی چیز مہیا نہیں کر سکتا تو اس اسپتال میں باقی سہولتوں کا کیا حال ہو گا۔ سرجری جیسے حساس شعبے میں باتھ روم بھی گندے تھے ۔ سوچیئے کہ سرجری کے مریض اس گندے باتھ روم کو استعمال کرنے پر مجبور ہیں ان کا کیا حال ہوتا ہو گا۔ ڈاکٹروں سے بات ہوئی تو وہ شکوہ کناں تھے کہ مریض روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں ہوتے ہیں مگر ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ، دوائوں اور سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان پر اتنا بوجھ ہے مریضوں کا کہ وہ خود مریض بن گئے ہیں اور مستقل درد سر کی داوئیں کھا نے پر مجبور ہیں۔ دوسری جانب مریض گلہ کر رہے تھے کہ انہیں اسپتال سے دوائیں نہیں ملتیں اور باہر سے مہنگی داوئیں لانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر اور اسٹاف ان کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں اور انہیں مار پیٹ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سرجری کے حالات دیکھنے کے بعد جب گائنی کے شعبے کا رخ کیا تو وہاں کے حالات دیکھ کر فیض یاد آگئے …؎
جابجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے
اب بھی دلکش ہے ترا حسن مگر کیا کیجئے
بے شک عمران خان کے تبدیلی کے نعرے کا حسن اور دلکشی ابھی باقی ہے مگر جب لیڈی ریڈنگ اسپتال میں عوام کے حالات پر نگاہ جاتی ہے تو بہت تکلیف اور دکھ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گائنی میں آدھی رات کو بھی بے شمار خواتین انتہائی کسمپرسی کی حالات میں پڑی ہوئی تھیں۔ ڈاکٹرز کا رویہ انتہائی سفاکانہ تھا۔ میرے سامنے ایک خاتون انتہائی تکلیف میں کراہ رہی تھی اور ڈاکٹر نے انتہائی لاپروائی سے اسے کہا کہ تمھارا بچہ نہیں بچ سکے گا یہ مر جائے گا ، ڈاکٹر کے یہ الفاظ اس ماں پرایک بجلی بن کر گرے ، میں نے اس ماں کے سر پر ہاتھ رکھا تو وہ میرے سامنے دھاڑیں مار مار کر رونے لگی مگر ڈاکٹر اطمینان سے سامنے بیٹھی رہی۔ یہ منظر میرے لیئے انتہائی تکلیف دہ اور ناقابل برداشت تھا۔ وہ عورت نہ جانے کتنی دور سے اس تکلیف کے عالم میں اس اسپتال میں ڈاکٹر کو اپنی مسیحا سمجھ کر آئی تھی وہ بجائے اس کی مدد کرنے یا اس کی ڈھارس بندھانے کے اسے انتہائی بے پروائی سے یہ خبر سنارہی تھی کہ اس کا پیدا ہونے والابچہ مر جائے گا۔ یہ انتہا تھی پیشہ ورانہ غیرذمہ داری کی مگر یہ لیڈی ریڈنگ اسپتال تھا ، تبدیلی کے صوبے کا سب سے بڑا اسپتال ، میں سوچتی رہی کہ وہ تبدیلی کہاں ہے جس کا ان غریبوں سے وعدہ کیا گیا تھا۔ انہیں خواب دکھائے گئے تھے ؟ ان غریبوں کے دن تو آج بھی اسی بے بسی اور بے کسی میں گزر رہے ہیں ، زندگی آج بھی ان کے لیئے ایک سزا ہے مجھے احساس ہوا کہ پاکستان میں غریب ہونا اور پھر بیمار ہونا کتنا بڑا جرم ہے جس کی سزا اس طرح اس قسم کے سرکاری اسپتالوں میں جا کر انہیں بھگتنی پڑتی ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ یہاں مردان ، نوشہرہ ، بنوں اور دیگر اضلاع سے زچگی کے کیسز ریفر کر دیئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے گائنی کے شعبے پر بہت بوجھ ہے جس کی وجہ سے اکثر مریضوں کو واپس بھیج دیا جاتا ہے اور جو خوش نصیب مریض داخل کیے جاتے ہیں ان پر بھی توجہ نہیں دی جا سکتی۔ سوال یہ ہے ابھی تک خیبر پختونخواہ کے باقی اضلاع کے اسپتال اس قابل کیوں نہیں ہو سکے کہ وہاں زچگی جیسے نارمل کیسز بھی پشاور بھیجنے پڑتے ہیں ؟
مجھے لیڈی ریڈنگ اسپتال کے برن سینٹر کو دیکھ کر کچھ خوشی ہوئی کہ وہاں کے ڈاکٹر حالات سے اتنے مایوس نہیں ہیں اور اپنا کام انتہائی ذمہ داری سے کر رہے ہیں مگر وہاں یہ دیکھ کر بہت حیرت بھی ہوئی کہ برن سینٹر کا ایک نیا شعبہ قائم کیا گیا ہے مگر وہاں ایک پولیس آفیسر اپنا قبضہ جما کر بیٹھ گئے ہیں۔ لیڈی ریڈنگ اسپتال میں اس رات مجھے احساس ہوا کہ تحریک انصاف کو تبدیلی کے لیئے ابھی سخت محنت کرنی پڑے گی۔ نوجوان جو تحریک انصاف میں بڑھ چڑھ کر شامل ہوئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ جوانی خواب دیکھنے کی عمر ہوتی ہے اور پھر جوں جوں عمر گزرتی ہے انسان خواب کے بجائے تلخ حقائق کو سمجھ کر قبول کر لیتا ہے اور خواب دیکھنا ہی چھوڑ دیتا ہے۔ عمران خان صاحب کو بھی سمجھنا چاہیئے کہ ان کے ساتھ آنے والے یہ نوجوان جو تبدیلی کا خواب دیکھ کر ان کے ساتھ چل پڑے ہیں ان کے خوابوں کو پورا کیا جائے اس سے پہلے کہ ان کی جوانی ڈھل جائے اور یہ بھی خواب دیکھنے کے بجائے اسی رنگ میں ڈھل جائیں جو ملکی سیاست میں چل رہا ہے اور وہ تحریک انصاف چھوڑ کر کسی اور جانب چل پڑیں۔ اب بھی وقت باقی ہے ، ابھی مہلت ہے کہ خیبر پختونخواہ میں تبدیلی کے خواب کو پورا کیا جائے اور عوام کے دکھوں پر مرہم رکھا جائے اور ان کا مسیحا بن کر دکھایا جائے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔