اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی + نوائے وقت رپورٹ) اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کیلئے قائم کردہ پارلیمانی کمیٹی نے جسٹس فیصل عرب کو چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ، جسٹس مقبول باقر کو جج سپریم کورٹ اور جسٹس ریاض احمد خان کو چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت مقرر کرنے کے بارے میں جوڈیشل کمشن کی سفارشات کی متفقہ طور پر توثیق کردی ہے۔ پارلیمانی کمیٹی نے ججوں کی تقرری کے سلسلے میں اپنے اختیارات میں اضافے کیلئے 22ویں آئینی ترمیم کی سفارش کی ہے جس کے تحت ججز کی تقرری کا اختیار جوڈیشل کمشن سے لیکر پارلیمانی کمیٹی کو دینے کی تجویز دی گئی ہے۔ پارلیمانی کمیٹی نے تینوں متذکرہ ججز کو بے داغ، اچھی شہرت رکھنے اور نئے عہدوں کیلئے موزوں قرار دیا ہے۔ پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس سینیٹر حاجی عدیل کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاﺅس میں ہوا جس میں جوڈیشل کمشن کی سفارشات کی روشنی میں اتفاق رائے سے جسٹس فیصل عرب کو چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ، چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس مقبول باقر کو جج سپریم کورٹ اور جسٹس ریاض احمد خان کو چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت مقرر کرنے کی سفارش کی ہے اور یہ سفارشات منظوری کیلئے وزیراعظم کے توسط سے صدر کو بھیج دی ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق ججز کی تقرری کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی نے ججوں کی تقرری کے طریقہ¿ کار میں تبدیلی کی سفارش کردی ہے۔ پارلیمانی کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ جوڈیشل کمشن اپنے پاس سے جج نامزد نہیں کرسکے گا۔ کمیٹی نے جسٹس فیصل عرب کو سندھ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس جسٹس ریاض احمد خان کو وفاقی شرعی عدالت کا چیف جسٹس مقرر کرنے کی منظوری دی۔ اجلاس نے ججز کی تقرری کے طریقہ¿ کار میں تبدیلی کیلئے ذیلی کمیٹی کی رپورٹ کی منظوری دیدی ہے۔ ججز تقرری کے طریقہ کار میںمجوزہ ترمیم کے مطابق تقرری کیلئے ہائیکورٹ کی سطح پر کمیٹی قائم کی جائے گی۔ کمیٹی حکومت کے نمائندوں، وکلاءاور ججز پر مشتمل ہوگی۔ کمیٹی تقرری کے لئے ججوں کا نام جوڈیشل کمشن کو بھیج سکے گا۔ یوں اب جوڈیشل کمشن اپنے پاس سے جج نامزد نہیں کرسکے گا۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ جوڈیشل کمشن میں کوئی بھی ریٹائرڈ جج نہیں ہوگا۔ ججز کی تقرری کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی کا فیصلہ حتمی ہوگا۔ یہ فیصلہ کسی عدالت یا کسی اور جگہ چیلنج نہیں ہوسکے گا۔ کمیٹی نے اپنی سفارشات لا ڈویژن کو بھیج دی ہیں۔ اجلاس میں حاجی عدیل نے کہا کہ لا ڈویژن اسے 22ویں آئینی ترمیم بناکر منظوری کیلئے قومی اسمبلی اور سینٹ میں پیش کرے گا۔ مجوزہ ترمیم کے مطابق پارلیمانی کمیٹی کے فیصلے کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔ ہائیکورٹ کی سطح پر ابتدائی کمیٹی ججوں کے ناموں کی سفارش کریگی۔
ججز/ تقرری