29جنوری کوچوہدری محمدسرورنے گورنرپنجاب کے عہدے سے مستعفی ہوکراپنی تقرری سے بڑی خبر بنالی۔ انہوںنے خاموشی سے استعفیٰ دینے کی بجائے پریس کانفرنس کرکے اپنے بھرپورخیالات کا اظہاربھی کیا۔ مسلم لیگ(ن)کے مخالف اس کو حکومت کیخلاف چارج شیٹ کہتے ہیںجبکہ راناثناءاللہ کا کہنا ہے کہ وہ جانا چاہتے تھے انہیں مکمل عزت واحترا م سے رخصت کیا گیا ہے۔ خود چوہدری سرور نے کہاکہ میرا میاں برادران سے کسی قسم کاکوئی اختلاف نہیں۔اصل مسئلہ مستعفی ہونا، چارج شیٹ دینااورکوئی اختلاف نہ ہونانہیں ہے بلکہ چوہدری سرورکاپریس کے سامنے اپنی سوچ کااظہارہے اور گورنرکی حیثیت کو سمجھنا ہے۔ چوہدری سرورنے کہاکہ ”وہ بطورگورنرعوام کے مسائل حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ لینڈ مافیا گورنر کے عہدے سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔ بلدیاتی اداروں کے بغیر جمہوریت کاکوئی تصور نہیں۔ ملک میں سچ کاقحط ہے۔ پاکستان میں ظلم اور ناانصافی میں اضافہ ہواہے۔ انصاف کمزورہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کی توقعات پرپورانہیں اترسکا“۔ چوہدری سرور کے بیان کو پرکھنے سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ انکی پاکستان میں سیاسی حیثیت کیاتھی اور بطور گورنر آئینی ذمہ داری کیا تھی۔بلاشبہ چوہدری سرور انگلینڈ میںایک مقام رکھتے تھے اورکئی مرتبہ منتخب ہوئے۔ انہیں سیاسی وابستگیوںسے بالاتر ہوکر پاکستانیوںنے سپورٹ کیا تھا۔ انکی بے نظیر بھٹوکے ساتھ گہری وابستگی تھی اوراسکے ساتھ ساتھ شریف برادران سے دوستی بھی۔ انہوںنے لندن بیٹھ کرہمیشہ پاکستان کے موقف کی تائید کی۔ یو کے پارلیمنٹ سے انکی رکنیت معطل ہوئی تومجھے یادہے کہ ہم نے محترم اسداللہ غالب اورملک غلام ربانی کیساتھ مل کرپاکستان میں بھرپورمہم چلائی تھی اوریہ مہم انکی پاکستان کیلئے خدمات کے عوض چلائی گئی تھی لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پاکستانی سیاست میں انکاکوئی کردارنہیں تھا۔انکی کوئی سیاسی حیثیت نہیں تھی۔کوئی حلقہ نہیں تھااورنہ ہی منتخب ہونیوالے لوگوں کاکوئی گروپ۔میاں نوازشریف اور میاں شہباز شریف نے اپنی پارٹی کے سینئر راہنماﺅں کو نظرانداز کرکے چوہدری سرور کو پنجاب کاسب سے بڑا آئینی عہدہ سونپا۔ بدقسمتی سے چوہدری سروراس عہدے کوسمجھنے میں ناکام رہے۔انکے کسی مشیرنے انہیں پاکستان کے آئین کوبھی نہیں پڑھایاجس میں گورنرکی حیثیت اوراختیارات واضح ہیں۔آئین کے آرٹیکل 105میں گورنرکے کردارکوطے کردیا گیا ہے۔ جس میں کہاگیاہے کہ
"Subject to the Constitution, in the performance of his functions, the Governor shall act on and in accordance with the advice of the Chief Minister and such advice of the Chief Minister shall be binding on him"
چوہدری سرورکوچاہئے تھاکہ گورنرکے عہدے کی خواہش کرنے سے پہلے آئین پڑھ لیتے تاکہ انہیں پریشانی نہ ہوتی۔بدقسمتی یہ ہے کہ ہرگورنراپنے آپکو گورنرمصطفےٰ کھر،گورنرغلام جیلانی اور گورنر خالد مقبول کی طرح اپنے آپ کودیکھناچاہتاہے اور بھرپوراختیارات استعمال کرنے کودل کرتا ہے۔ اس حقیقت کوجاننے اوراس پریقین کرنے کودل نہیں مانتاکہ مصطفےٰ کھرکی گورنری کاعرصہ عبوری آئین کے تحت تھاجبکہ غلام جیلانی اورخالدمقبول فوجی حکومت کے گورنرتھے۔ یاد رکھناچاہئے کہ جونہی 1973ءکاآئین نافذہواتومصطفےٰ کھرنے گورنری چھوڑ دی تھی اورصوبائی اسمبلی کارکن بن کروزیراعلیٰ بن گئے تھے۔گورنرایک آئینی عہدہ ہے۔ عوام کا مینڈیٹ قائدایوان کے پاس ہوتا ہے۔ سیاسی فیصلے کرناسیاستدانوں کاکام ہے اورقانون سازی کرنا اسمبلیوں کی ذمہ داری۔ انہوںنے پریس کانفرنس میں جن معاملات کی نشاندہی کی ہے تومیں کہتاہوں کہ کیاچوہدری سرورکوگورنری کاعہدہ قبول کرنے سے پہلے معلوم نہیں تھاکہ پاکستان میںظلم اور ناانصافی ہے۔اس میںاضافہ کاکیامطلب اورآپ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ میں عوام کے مسائل حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔حقیقت یہ ہے کہ یہ آپکامینڈیٹ ہی نہیں تھا۔ گورنرکی حیثیت آئینی ہے ۔ اسکی ذمہ داری وہ ہوتی ہے جوصوبائی حکومت انکودے۔گورنرنے صرف اورصرف وزیراعلیٰ اور صوبائی حکومت کی ایڈوائس پرچلنا ہوتا ہے۔ مجھے حیرانگی ہے کہ انہوں نے کس طرح فرض کرلیا کہ اوورسیز پاکستانیوں کی ذمہ داری انکی ہے۔وہ ان کیلئے کچھ نہیں کرسکے و ہ ان سے شرمندہ ہیں۔ شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیںتھی کیونکہ اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کیلئے وفاقی حکومت میںپوری منسٹری ہے۔ اس طرح ظلم اورناانصافی جیسے مسائل پر قابو پاناصوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔چوہدری سرور نے ازخود طے کرلیا کہ دراصل وہ پنجاب کے اصل حکمران ہیں انہیں اس بات کااحساس ہی نہیں رہا کہ وہ محض ایک آئینی گورنر ہیں۔انکایہ کام نہیں تھا کہ وہ الطاف حسین کے ساتھ بیٹھ کر لندن میں پریس کانفرنس کرتے اور الطاف حسین پریس کانفرنس میں مارشل لاءکامطالبہ کرتے۔ اس طرح صدراوبامہ کے بھارت دورہ کرنے اورپاکستان نہ آنے کوحکومت کی خارجہ پالیسی ناکام قراردینے کابیان دینا انکے منصب کیخلاف تھا۔ گورنر وفاقی حکومت کانمائندہ ہوتا ہے اسکاکیاکام کہ وہ وفاقی حکومت کیخلاف ہی بیان بازی کرے۔اگرکسی کو سیاست کرنے اور بیان بازی کاشوق ہے تواس کیلئے میدان کھلاہے لیکن جب کوئی شخص کسی منصب کوقبول کرلیتاہے تو اسکی اخلاقاََاور حلفاََ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے دائرہ کار کیمطابق act کرے۔ چوہدری صاحب نے بلدیاتی نظام کی بات بھی کی ہے۔ بلدیاتی انتخاب کراناآئینی ذمہ داری ہے۔ انکا موقف درست ہے لیکن اس کاصحیح پلیٹ فارم یہ تھاکہ وہ بطور گورنر حکومت کوConvinceکرتے کہ بلدیاتی ادارے ہونے چاہئیں۔میں باربار کہنا چاہتا ہوں کہ گورنرکی حیثیت میں صرف وہی کام کیا جاسکتا ہے اور وہی بیان دیاجا سکتا ہے جس کی صوبائی حکومت اجازت دے۔پارلیمنٹ سے ہرپارلیمانی سال کے آغاز پر صدرپاکستان خطاب کرتے ہیں اوریہ تقریر ایوان صدرمیں تیارنہیں کی جاتی بلکہ وفاقی حکومت کرتی ہے جسکوصدرپاکستان پڑھ کرسناتے ہیں۔پارلیمانی نظام میں اختیارات کی تقسیم نہیں ہوتی۔ اسی لئے توجنرل ضیا ءالحق کی پیداکردہ ترمیم 58-2/B کوکبھی کسی نے تسلیم نہیں کیا تھا۔کیونکہ اس ترمیم کے نتیجے میں 1985ئ، 1988ء،1990ءاور1993ءکی اسمبلیاں برخاست کی گئیںجس کی وجہ سے جمہوریت کاپوداپنپ نہ سکا اور آخرکار منتخب نمائندوں کو ڈکٹیٹر کی ترمیم 58-2/B کو آئین سے نکالناپڑا۔چوہدری سرور کو نہ خود ہیرو بننا چاہئے اورنہ انکوکوئی بنانے کی کوشش کرے۔وہ سال سے زیادہ گورنررہے اس پر انکو شریف برادران کامشکور ہونا چاہئے۔عرصہ گورنری میں انکوحکومت کوئی رول دیتی رہی تو اس کیلئے حکومت کاشکرگزارہوناچاہئے اوراگرحکومت نے کسی رول کی یاذمہ داری کی ضرورت نہیں سمجھی توبھی حکومت کامشکورہوناچاہئے۔یہ عزت کافی نہیں کہ وہ پنجاب کے آئینی سربراہ تھے۔بدقسمتی یہ ہے کہ بندہ توجینا چاہتا ہے لیکن لوگ جینے نہیں دیتے۔ مجھے یہ لگتاہے کہ چوہدری سرورکولوگوں نے یقین دلایا ہے کہ آپ نگران وزیراعظم بن سکتے ہیں۔ حکومت جانیوالی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیایہ جمہوریت ہے؟ چور دروازے سے حکومتوں کے جانے سے جمہوریت مضبوط نہیں ہوتی ۔ وہ کون سی جمہوریت اور کون سے سیاسی کارکنوں کی بات کررہے ہیں۔ جمہوریت میں توالیکشن کے نتیجے میں وزیراعظم بنتا ہے۔ جمہوریت میں توپارٹی ڈسپلن کیمطابق چلنا پڑتا ہے۔ اگران کو وفاقی اورصوبائی حکومت کی پالیسیوں پراتفاق نہیں تھا تو ان کو چاہئے تھاکہ بڑی عزت کیساتھ رخصت ہو جاتے۔ بیان بازی کی کیاضرورت تھی۔چوہدری سرور کو انکے مشیروں نے بڑے بڑے خواب دکھاکرانکے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔