سکونِ قلب

Feb 03, 2016

شہر یار اصغر مرزا

شہر میں شدید با رش کے سبب رکشا لینا بہتر تھا۔ ٹاﺅن شپ چلو گے، کتنے پیسے لو گے۔ جو دل کرے دینا سر جی! پھر بھی۔ سر ایک بات کہوں بُرا مت ماننا میں ایک جاہل آدمی ہوں مگر اتنا جانتا ہوں کہ جو اللہ نے میرے نام کا آپ کی جیب میں ڈال دیا ہے۔ وہ آپ رکھ نہیں سکتے، توکل اسی کا نام ہے۔ اسکی بات میں وہ ایمان تھا جس سے ہم اکثر محروم رہتے ہیں۔ رکشا ابھی تھوڑا آگے گیا کہ مسجد دکھائی دی ۔ سر جی نماز پڑھ لیں پھر آگے چلتے ہیں۔ اس نے رکشا مسجد کی طرف مو ڑ لیا۔ آپ نماز پڑھیں گے۔ کس مسلک کی مسجد ہے؟ میرا سوال سُن کر اس نے میری طرف دیکھا۔ باﺅ جی مسلک سے کیا لینا دینا اصل بات مسجد کی ہے، اللہ کے سامنے جھکنے کی ہے، یہ اللہ کا گھر ہے۔ میرے پاس کوئی عذر باقی نہیں تھا۔ نماز سے فارغ ہوئے اور اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگے۔ سر آپ نماز با قاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔ نہیں یار کبھی پڑھ لیتا ہوں کبھی غفلت ہو جاتی ہے تو کیا یہ احساس میں نے اسے کہا یہی سچ تھا، جب غفلت ہوتی ہے تو کیا یہ احسا س ہوتا ہے کہ غفلت ہوئی اور نہیں ہونی چاہیے۔ معاف کیجئے یہ ذاتی سوال نہیں ہے اگر احساس ہوتا ہے تو اللہ ایک دن ضرور آپ کو نمازی بنا دے گا اور اگر احساس ہی نہیں ہوتا تو ۔۔۔
وہ خاموش ہوگیا، اس کی خاموشی مجھے کاٹنے لگی۔ تو کیا، میرا لہجہ بدل گیا، اگر آپ ناراض نہ ہوں تو کہوں ہاں بولیں، اگر غفلت کا احساس نہیں تو اپنے آمدن کے وسائل پر غور کریں اور اپنے اللہ سے معافی مانگیں اللہ آپ سے راضی نہیں، ہم منزل پر آ چکے تھے۔ میں نے اسکے توکل کی حقیقت جاننے کیلئے جیب سے سو روپے کا نوٹ نکالا اور اسکے ہاتھ میں رکھ دیا۔ اس نے بسم اللہ کہا اور نوٹ جیب میں رکھ کر رکشا موڑ نے لگا۔ میں نے آواز دی، وہ رُک گیا حکم سر جی! تم ان پیسوں میں خوش ہو۔ جی مشکل سے پچاس روپے کا پیٹرول جلا ہو گا، اللہ نے اس خراب موسم میں بھی میرے بچوں کی روٹی کا انتظام کر دیا۔میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے، میں نے جیب سے مزید دو سو نکالے اور اسے دینے کیلئے ہاتھ بڑھایا۔ وہ مسکرایا، سر جی! دیکھا آپ نے، میرا حق سو روپے تھا اور اللہ کے توکل نے مجھے تین سو دیا۔ وہ چلا گیا، میرے ایمان کو جھنجھوڑ کر میں کافی دیر تک یہ سوچتا رہا کہ مضبوط ایمان انسان کو کس قدر دیانتدار، اطمینان قلب مہیا کر دیتا ہے، آج کے اس مشکل دور میں جب ہر انسان پریشانیوں اور مصائب کا شکار ہے اس خطہ زمین پر ایسے ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کے دل و دماغ کو اللہ تعالیٰ نے اتنا سکون عطا کر دیا ہے۔ اس شخص کی زندگی میں مسئلہ نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔مجھے کئی با ر رکشوں میں سفر کرنے کا اتفاق ہوتا ہے، میں اپنی عادات سے مجبور ڈرائیور حضرات سے حالاتِ حاضرہ پر گفتگو شروع کر دیتا ہوں اور وہ بھی اپنے اپنے مسائل و مشکلات پر کھل کر روشنی ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔ زیادہ تر ڈرائیور ٹریفک پولیس کے ہاتھوں تنگ نظر آتے ہیں، مہنگائی سے ہر شخص پریشانی کا شکار ہے۔ کچھ لوگوں کو سیاسی باتوں سے سکون حاصل ہوتا ہے اور اپنے پسندیدہ لیڈر کی تعریف سُن کر خوش ہو جاتے ہیں لیکن اللہ کا شکر اداکرنے والا رکشا ڈرائیو ر کم ہی نظر آتا ہے۔
اس مصا ئب سے زندگی کو خوشگوار بنانے کیلئے جو طریقہ مجھے اُس رکشا ڈرائیور نے بتایا ہے ہم مسلمانوں کیلئے ہی واحد راستہ ہے۔ اس سے ہم خواہشاتِ نفس کی غلامی سے بچ سکتے ہیں، یہی راستہ ہمیں فضول خرچیوں کا ایک دوسرے کی اندھی تقلید اور سادگی کا درس بھی دیتا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے سے اوپر دیکھتے ہیں اور اوپر والوں جیسا بننے کی کوشش میں ہر ذریعہ استعما ل کرتے ہیں، رشوت بھی یہیں سے جنم لیتی ہے۔ میرا ایک دوست ہے جو مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہے اللہ نے اسے گاڑی بھی دے رکھی ہے مگر ہمیشہ وہ اپنی گاڑی کی خرابیاں ہی بتاتا ہے حالانکہ اسے میں نے اللہ کا شکر کرنے کا ہی مشورہ دیا اور اسے سمجھایا جن کے پا س اپنی سواری نہیں ہے، اپنا گھر نہیں ہے، ان سے تم ہزار گنا بہتر ہو اپنا تین مرلے کا گھر بھی اسے بُرا لگتا ہے گاڑی بھی چھوٹی لگتی ہے۔
موبائل کے بھی اعلیٰ سے اعلیٰ ماڈلوں کی تلاش میں رہتا ہے۔ مجھے چند روز قبل اس نے اپنی خواہش بتائی کہ اللہ مجھے میرے 21 انچ ٹی کی جگہ کوئی بڑی ایل ای ڈی دیدے تو زندگی آسان ہو جائے۔ میں نے اسے کہا کہ یہ تمام چیزیں تمہیں مل بھی جائیں تو تمہارے مسا ئل کم نہیں بلکہ زیادہ ہو جائیiگے۔ اپنی چادر سے زیادہ پاﺅں پھیلا کر کبھی کوئی پرُسکون شخص میں نے نہیں دیکھا اگر سکون چاہتے ہو، مسائل میں کمی چاہتے ہو تو اپنے سے نیچے والوں کو دیکھو جن کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ جو اللہ نے تمہیں عطا کیا ہوا ہے اللہ سے دوستی کر لو اور اس کے حصار میں آ جاﺅ سکون قلب حاصل کرنے کا حقیقی ذریعہ یہی ہے جو شخص اپنے آپ کو مکمل طور پر اللہ کی سپر داری میں دیدیتا ہے اللہ اسے کبھی مایوس نہیں ہونے دیتا بلکہ اس رکشا ڈرائیور کی طرح سکون قلب عطا فرماتا ہے ۔

مزیدخبریں