مجید نظامی اور میں

نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے ایک خصوصی اجلاس میں کی جانے والی ایک تقریر۔

دوسری اہم بات اس حوالے سے یہ ہے کہ آل انڈیا کی جب کمبائنڈ گورنمنٹ کے ہوم سیکرٹری سے یہ پوچھا گیا کہ یہ اتنی بھاری رقم کی ٹرانزکشن پشاور میں ہورہی ہے، آخر یہ کہاں جارہی ہے ؟آگے یہ لکھا ہوا تھا۔ ڈاکٹرخان صاحب ولی خان کے چچا اور اسفند ولی کو کیوں منتقل ہورہی ہے؟ آگے استعمال کیا ہے َیہ نہیں معلوم ہو رہا ہے لیکن ہرسال اتنی بڑی کثیرمقدار جارہی ہے‘پھر اس کا جواب یہ آیا ،و ہ جواب بھی میَں نے اپنی کتاب میں چھاپا جو کہ ہوم سیکرٹری کا اپنا جواب ہے جو کہ انگریزی میں ہے، میَںنے اس کو فوٹو سٹیٹ کروا کے شائع کیا ہے۔وہ جواب یہ تھا ’’یہ رقم ان کو بھیجی جارہی ہے انگریزی سرکار کی خدمات کیلئے، افغان قوم کو تیار کرنے کے عوض میں ‘‘تیسری بات یہ ہے کہ عبدالولی خان کے والد محترم عبدالغفار صاحب نے کہا تھا کہ میَں اس سرزمین پر دفن ہونا پسند نہیں کرتا ہوں۔اندرا گاندھی صاحبہ نے جو انہیں میڈل دیا تھا اور ساتھ جو کیش پیسے دئیے تھے اور میڈل کے ساتھ جو تفصیل بتائی گئی تھی وہ یہ تھی،کہ انڈین گورنمنٹ کے مفادات کو اپنے صوبہ میںآگے بڑھانے،خدائی خدمت گار کی تحریک کی خدمات کے عوض یہ میڈل اور یہ نقد رقم پیش کی جاتی ہے۔ اسکے علاوہ ایک کتاب شائع ہوئی تھی۔نوائے وقت کاپہلا پورا صفحہ چار کلرز میں‘ تب میَں وہاں ڈپٹی ایڈیٹر ہوتا تھا،وہ صفحہ آج بھی نوائے وقت کے ریکارڈ میں موجود ہے۔اس صفحہ پر یہ تحریر تھا کہ انڈین ایجنسی را کا ایک سابق چیف’’ اشوک رینا‘‘ تھا اور کتاب کا نام تھا ’’اِن سائیڈ را،دی انڈین سیکرٹ سروس ‘‘ اس کتاب کے ایک صفحہ پر یہ واقعہ درج ہے۔انڈیا کے مسٹر مرار جی ڈیسائی جب وزیراعظم بنے تو انکے سامنے ایک فائل لائی گئی جس میں انہوں نے ایک بات پر اعتراض کیا کہ اتنی بھاری رقم ہر مہینے کابل کے ذریعے کہاں خرچ ہورہی ہے ؟اس کا پورا ترجمہ میَں نے نوائے وقت کے فرنٹ پیج پرچھاپا تھا جس کو آج تک کسی پارٹی یا لیڈر کی طرف سے چیلنج نہیں کیا گیا۔یہ اب تک محفوظ ہے۔ ’’را‘‘کے سابق سربراہ رینا نے لکھا کہ یہ رقم خان عبدالولی خان کو خفیہ طورپر ہر مہینے بذریعہ کابل پیش کی جاتی ہے۔اس سے بھی اگلی بات یہ ہے جو اب انکے فرزند ارجمند کے بارے میں ہے۔آپ یہ کہیں گے کہ میَں سیاسی بات کررہاہوں تو جناب میَں پاکستان کے دشمنوں کی بات کررہا ہوں۔جو اسکے تصور کیخلاف ہیں ،جو اس کے نظریے کیخلاف ہیں۔جو قائداعظمؒ کی تھیوری کیخلاف ہیں،جو اس ملک کی سرحد کیخلاف ہیں۔ آپ سب حضرات ایک آدمی جو قومی اسمبلی کا رکن رہا ہو۔سینٹ کا فارم پر کیا ہوجس میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ آپ پاکستانی ہیں،مذہب کے لحاظ سے،نظریے کے لحاظ سے ہر لحاظ سے اور آپ پاکستانیت کو توتسلیم کرتے ہیں۔اور آپ تھیوری کیمطابق پاکستان کو تسلیم کرتے ہیں۔ ہمارے یہ لیڈرجو آجکل اس صوبے میں اپنی پارٹی کے سربراہ ہیںانہوں نے سینٹ اور ایک بار قومی اسمبلی میں اس فارم کو پرکیا ہے۔لیکن آج وہ یہ فرماتے ہیں جو کہ میَں نے اپنے اخبار میں لکھا بھی ہے،کہ میَں افغانی ہوں، افغانی پیدا ہوااور افغانی ہی مروں گا۔شاید انکی خواہش بھی یہی ہے کہ مجھے بھی اپنے دادا کی طرح افغانستان میں ہی دفن کیا جائے۔اب یہ بات میَں اس ملک کے قانون دانوں پر چھوڑتا ہوں۔کہ کیا وہ اس بنیاد پر ان کی سیٹ کو چیلنج کرسکتے ہیں کیونکہ انہوں نے فارم تو یہ بھرا ہوا ہے کہ میَں پاکستانی ہوں۔جبکہ خود وہ فرماتے ہیں کہ میَں پاکستانی نہیں ہوں۔اسی طرح بلوچستان میں برہمداغ بگٹی اور خان آف قلات کے سلمان داد پر ریسرچ کی۔انکی تصاویر منگوائی ہیں۔یہاں سے بیٹھ کر انکے انٹرویوز کروائے۔ لندن میں اپنے بندے بھیج کر ان سے معلومات اکٹھی کروائیں۔یہ اتنی عجیب بات ہے کہ اتنا بڑا الزام سلمان خان قلات کے بیٹے نے لندن میں بیٹھ کر لگایا جو کہ انڈین ایکسرپس میںمن وعن شائع ہوا۔ اور پاکستانی اخبارات میں بھی شائع ہوا۔
الزام یہ ہے کہ بلوچستان کو بندوق کی نوک پر پاکستان میں شامل کیا گیا تھا۔جناب عالی! ایسا بالکل نہیں ہوا تھا کیونکہ تصاویر موجود ہیں۔اور سب سے پہلی بات یہ ہے کہ قائداعظمؒ خان آف قلات کے لیگل ایڈوائزر تھے کئی مقدمے انہوںنے لڑے۔ انہوں نے بلوچستان کی ریاستوں پر مشتمل سٹیٹ اسمبلی بنائی ہوئی تھی،جو کہ منتخب ہوتی تھی۔قائداعظمؒ اسکے وکیل تھے انکی تصاویر انکے ساتھ موجود ہیں۔دوسری بات پاکستان بننے کے بعد آپس میں ایک گفتگو کے نتیجے میںخان قلات نے پاکستان سے الحاق پر دستخط کئے تھے۔اور ان کا اختلاف ون یونٹ بننے پر ہوا۔ون یونٹ جب بنا بلوچستان کو ختم کرکے مغربی پاکستان میں شامل کیا گیا تو اس وقت اس نے اسکے بارے میں یہ کہا تھا کہ ہم اپنی الگ آزاد ریاست چاہتے ہیں۔ورنہ چار سال کچھ مہینے وہ پاکستان کیخلاف نہیں تھے۔ اور نہ ہی 1947ئمیں بلوچستان کو کسی فوج کے ذریعے فتح کیا گیا تھا۔
اب آخر میںسندھو دیش میں،جس کا میَں نے خود اردو ترجمہ کیا ہے۔اور اس کا اردو ترجمہ کے ساتھ نام یہ ہے۔’’زنجیروں میں جکڑی ہوئی قوم‘‘اس میں جی ایم سیدنے اپنی پہلی تھیوری میں لکھاہے کہ قائداعظمؒ نے ہمارے صوبے بلوچستان کو غلط طورپر پاکستان میں شامل کیا ہے۔ہم پاکستان کی سرحدوں کو نہیں مانتے ہیں اورہم پاکستان اور انڈیا کے سندھیوںکو دوبارہ سے ایک ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔اس سے بھی اگلی بات اس کے بعد الطاف حسین آتا ہے اسکے بارے میں مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ انہوں نے پاکستان سے باہر بیٹھ کر اسکی سرحدوں کے بارے میں،اس ملک کے بارے میں،اسکے جغرافیہ کے بارے میں،اس کی افواج کے بارے میں،اسکے دستور کے بارے میں کیا کہا،اور مدد کس سے مانگی ؟ را سے،اور اسرائیل سے،میَں یہاں اپنی گفتگو ختم کرنے سے پہلے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میری یہ گزارش ہے کہ اس ادارے کو جتنا کام یہ کر رہا ہے۔میَں اس کو بہت خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔اللہ پاک آپ سب کو اور خدمات سرانجام دینے کی ہمت وتوفیق عطا کریں۔آمین لیکن ساتھ ہی یہ بھی گزارش کرتاہوںکہ پاکستان میںخواہ وہ امن کی آشا کے نام پر ہو۔خواہ لوگ جنہیں یہ تکلیف ہے کہ وہ جلد از جلد اس سرحد کومٹائیں۔کچھ لوگ،کچھ ادیب ،کچھ شاعر،کچھ صحافی،اس سرحد کو خونی لکیر کہتے ہیں۔یہ خونی لکیر ختم ہونی چاہئے ۔اور کچھ کا یہ کہنا ہے کہ ہمارا لبا س ایک ہے۔ہمارا کھانا پینا ایک ہے۔ہم تو جناب ایک ہی قوم ہیں۔میَں یہ سمجھتاہوں کہ بچوں کو ایک دلنشین انداز میں،ایک مثبت انداز میںیہ پڑھانا بھی بہت ضروری ہے کہ پاکستان کیا تھا اور اسے کیا بنایا گیا ہے؟
میری اس ادارے کے سربراہ جناب رفیق تارڑ صاحب سے درخواست ہوگی کہ وہ ادارے میں ایک ایسا تحقیقی سیل قائم کریں،جو پاکستان کیخلاف نظریاتی جنگ لڑے اور جہاں جہاں سے بھی پاکستان کیخلاف کوئی بات اٹھے۔خواہ وہ کوئی بھی ہو ،خواہ وہ حکومت ہویا ایوزیشن ہو،یا کوئی سیاسی جماعت ہو ،خواہ وہ کوئی اخبار ہو،خواہ وہ کوئی میڈیا گروپ ہو۔یا کوئی انڈر ہینڈ سلسلہ چل رہا ہو،اگر یہ کام جو کہ نظریاتی حوالے سے ،تحقیق کے حوالے سے،دلائل کے ساتھ یہ ادارہ اگر خدانخواستہ نہیں کرتا ہے، تو میرا یہ سوال کہ پھر پورے پاکستان میں نظر دوڑائیں پشاورسے لیکر کراچی تک اور جناب رفیق تارڑ صاحب اور جناب شاہد رشید صاحب،اور یہاں بیٹھے تمام حاضرین پھریہ کام کون سا ادارہ کریگا؟کوئی ریسرچ سنٹر نظر آتا ہے،کوئی لائبریری نظرآتی ہے۔اس ملک میںکوئی ایسا ادارہ نہیں ہے سوائے اس ادارے کے جو پاکستان پر ورک کرے۔اورمیَں یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ کراچی کے اداروں کے،میَں وہاں ایڈیٹر رہاہوں۔کسی بھی جگہ کچھ نہیںہوا ہے۔کوئی کام نظر نہیں آتا ہے۔کہیں کوئی ریسرچ ورک نہیں ہوا۔کبھی پاکستان کے دشمنوں کے چہرے ننگے کرکے نہیں دکھائے گئے ہیں۔اور انکے پیچھے جو مذموم سازشیں ہیں کبھی ان کوآشکار نہیں کیا گیا ہے۔اور کبھی وہ جنگ جس کی بنیاد پر پاکستان بنا تھا۔اور جو تصور پاکستان کی بنیاد ہے۔اس لڑائی کو معاف کیجئے گا بحیثیت قوم ہم نے چھوڑ دیا ہے۔اور اب بھی میِں یہی کہتا ہوں کہ قائداعظمؒ کے پیش کردہ دو قومی نظریہ کی بنیاد یہ تھی کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں۔انکی تہذیب،انکی خوارک،ان کی زبان،ان کا اٹھنا بیٹھنا،الگ الگ ہے۔اب تک آپ دیکھتے ہیں کہ ہر تیسرے دن انڈیا سے خبر آتی ہے ایسے ہی کسی نے کہہ دیا کہ فلاں آدمی گائے کا گوشت لے کر جارہا تھا۔یہ بات تحقیق بھی نہیں کی جاتی ہے۔اور اس آدمی کوپکڑ کر سڑک پر مار دیا جاتا ہے۔جناب کیا یہ سارے آج کے واقعات یہ ظاہر نہیں کرتے ہیں،کیا خالد بن گابا کی کتاب ’’مجبور آوازیں‘‘ جس کا ترجمہ سید قاسم محمود نے کیا تھا اس سے لے کر آخری ریسرچ جوکہ نوائے وقت کے ایڈٹیوریل رائٹر جناب بشیر احمد ارشد کی بیٹی ہیں نے جو کہ پنجاب یونیورسٹی میں جو اعداد و شمارجمع کئے ہیں۔اور وہ کتابی شکل میں چھپے ہیں۔اس کتاب کا نام بھارت کی مسلم اقلیت ہے۔آج کے پاکستان کے حوالے سے ہم سو برائیاں او رکمزوریاں نکالتے ہیں۔لیکن مجھے بڑی امید ہے جس طرح سے ابھی کچھ روز پہلے واقعہ ہوا ہم نے حافظ آباد کے مسئلہ کو پکڑا ،جہاں ایک معذور بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی تو وہ بندہ آزادکیوں پھر رہا ہے؟(اگرچہ بعد میں وہ گرفتار ہو گیا)اور اسی سکول میں ایک بچی ڈیڑھ سال تک لٹتی رہی۔ اور ایک ایسی بچی جو کہ ذہنی معذور اور پاگل ہے۔ اسی کے ساتھ دوسرا واقعہ اسلام آباد میں جج صاحب کے گھر میں ہوا ہے۔جس پر ٹی وی چینلزنے بھی شور مچایا اور اخبارات نے بھی شورمچایا۔اور چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے اس کا سوموٹو لے لیا۔چند دن پہلے ٹی وی چینلز دکھا رہے تھے کہ لاہور کے جناح ہسپتال میں ڈاکٹروں کی عدم دلچسپی کی بنا پرٹھنڈے فرش پر ایک عورت سسکتی مر گئی۔ان تمام باتوں کے باوجود مجھے یہ امید ہے۔میں قطعاً مایوس نہیں ہوں۔میَں یہ سمجھتا ہوں کہ اب پاکستان میں سیاسی طورپر وہ شعور بلند ہورہا ہے کہ اب ہر گھر میں بچے بھی یہ سوال پوچھتے ہیں۔ میرے اپنے گھر میں میرے پوتے پوتیاں پوچھتے ہیں کہ دادا یہ تو بتائیں کہ اگر ہسپتال والے عورت کو بیڈ نہیں دے سکتے ہیں تو کیا وہ اسے اوپر کمبل بھی نہیں اوڑھا سکتے ہیں؟ میری عمر کی نسل نے بہت دھکے کھائے ہیں۔ میری نسل کے لوگوں نے بہت غلطیاں کی ہیں۔ہم نے پاکستان کا حلیہ بہت بگاڑا ہے۔لیکن اب جو آج کی نسل ہے۔ جہاں کہیں ظلم ہوتے دیکھتی ہے تو اسکے دل میں خیال ضرور پیدا ہوتا ہے۔شام کو ٹی وی پر کچھ غلط ہونے پر شور ضرور مچتا ہے۔اگلے دن اخبار میں بھی اس پر کھپ ضرور ہوتی ہے۔دس آدمی کسی بھی دکان پر بیٹھ کر بات ضرور کرتے ہیں کہ یہ کام غلط ہواہے یہ جو سیاسی شعور پیدا ہے۔ یہ وہی شعور ہے جو 1940میں قائداعظمؒ نے قراردادپاکستان کی شکل میںپیدا کیا تھا جس کی بنا پر ملک بن گیا۔مجھے نہیںمعلوم کہ سپریم کورٹ اس کیس کا کیا فیصلہ کریگی۔لیکن یہ بھی پاکستان کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ موجودہ حاکم کے خلاف ایک کیس سن رہی ہے یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔یہ وہ بات ہے جس کیلئے ہم گزشتہ سات دہائیوں سے ترس رہے تھے کہ ہمارا نظام عدل ،اورنظام احتساب ایسا ہو کہ جہاں بڑے سے بڑے آدمی سے بھی پوچھ گچھ ہوسکے۔جب ہم حضرت عمر ؓکی کہانی سنتے تھے کہ عمرؓ بتائو تمہارا یہ کرتا اتنا لمبا ایک ہی چادر میں کیسے بن گیا ؟ اب چونکہ آگاہی پید اہورہی ہے۔اب سوچ پیدا ہورہی ہے۔اب بچے بھی سیانے ہورہے ہیں۔وہ سوال کرتے ہیں۔وہ پوچھتے ہیں کہ فلاںکام کیوں ہورہا ہے اس کی وجہ بتائو؟اس لئے جناب رفیق تارڑ صاحب نہ صرف آپ اپنے کام کو جاری رکھیں بلکہ اس کو آگے بڑھائیں اور ریسرچ ورک کو تیز کریں۔اور وہ نظریاتی لڑائی بھی لڑئیں جو کہ کوئی اور صوبہ ،شہر اور ادارہ نہیںلڑ سکتا ہے۔… آپ سب کا بہت شکریہ!(ختم شد)

ای پیپر دی نیشن