بہت تیزی سے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ ملکی داخلی سلامتی کے حوالے سے وزارت داخلہ اب بہت ہی مستعد نظر آتی ہے۔ امریکہ کا نیا بین الاقوامی ایجنڈا دراصل اسکی پرانی پالیسیوں کا وہ تسلسل ہے جس میں اس نے یہ طے کرلیا تھا کہ مسلمانوں کو روئے زمین سے مٹا دیا جائے اور انکی سلامتی وبالادستی کا سب سے بڑا متحرک اور پیشوا طرز کا مظہر خطہ پاکستان ہے۔ اسکے ہاتھ میں بظاہر مسلم امت کی آزادی کے دفاع کی قیادت نظر آتی ہے اس لئے اسکے ہاتھ سے قیادت کا علم زبردستی چھین لیا جائے اور اگر فی الوقت اس میں ناکامی بھی نظر آئے تو اس کو پوری قوت سے دبانے کیلئے اس پر دائرہ حیات اتنا تنگ کر دیا جائے کہ وہ ازخود گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے‘ اسی لئے اکیسویں صدی کے شروع ہی میں اس طرح کے تاثر پیدا کیے گئے کہ خدا نخواستہ پاکستان 2015ء تک عالمی نقشے پر اپنی شناخت برقرار نہ رکھ سکے گا۔ پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی اصل کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے دونوں اہم پہلوئوں پر نہایت پر خاموشی سے حملے جاری رکھے گئے۔پاکستان اور ایران کے تعلقات میں رخنہ اندازی کیلئے بہت پاپڑ بیلے گئے۔پاکستان افغانستان کو ایک گوریلا جنگ میں الجھانے کے بعد افغانستان کی سرپرستی کو اپنا اہم ترین بین الاقوامی مشن قرار دینا بھی امریکہ کی پاکستان دشمنی کا سب سے بڑا ثبوت نظر آتا ہے۔ پاکستان کی اسلامی شناخت کوختم کرنے کیلئے میڈیا کی جنگ کو بھی تیز کیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی قدیم الاصل علاقائی شناخت کی مظہر ثقافت کو بھی پوری طرح سے بے حیائی اور فحاشی کی بے لباسی عطا کرنے کا مکروہ دھندا بھی جاری رہا۔ظاہر ہے کہ سازش کا آسان راستہ بھی یہ ہے کہ ثقافتی کھچائو کی فضا پیدا کرکے قدیم الاصل تہذیب کے نمائندوں کو برا فروختہ کیا جائے اور یوں پاکستان کے اندر ہی سے تہذیبی ٹکرائو کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ پاکستان کی مشرقی ثقافت کے نمائندوں نے جب مزاحمتی ردعمل کا اظہار کیا تو پھر باقاعدہ سے خانہ جنگی کا ابتدائی سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔تیسرا اہم نکتہ پاکستانی مذہبیت کے مضبوط تصور کو تاراج کرنے کیلئے جو اختیار کیا گیا اس میں مرکزی کردار پاکستانی اسلامی مکاتب فکر کے باہمی فروعی اختلاف کو اس درجہ اچھالا گیا کہ ہر مکتب فکر مستقل طور پر ایک مذہب نظر آنے لگا۔ اس طرز وانداز سے پاکستان میں اسلامی فرقہ وارانہ تصادم اور فسادات نے جنم لیا۔ اس طرح کے بدترین حالات میں امریکہ کی تیار کردہ خاموش پاکستانی تنظیموں نے اپنا دوہرا منافقانہ کردار بھی ادا کیا۔ یہ تنظیمیں جو این جی اوز کے نام سے پہچانی جاتی ہیں اب مذہبی حلقوں میں بھی پوری قوت سے دراندازی کر رہی ہیں۔ اس سلسلے کی رپورٹس سامنے بھی آئی ہیں اور کچھ مذہبی ذمہ داران کے ناموں کا پتہ بھی چلا ہے۔پاکستان میں سیاسی‘ مذہبی اور معاشرتی خلفشار کیلئے بیرون ملک سے جو کچھ درآمد کیا جارہا ہے یقینا وہ اعلیٰ حکومتی اداروں اور افراد کی نظر سے پوشیدہ نہیں ہوگا اور اسکی تفصیلات بھی انکے پیش نظر ہوں گی اور وہ قومی سلامتی اور قومی مفادات کے تحفظ کیلئے کسی بھی بڑے واضح اقدام کے بارے میں سوچ بچار میں مصروف ہونگے۔اب جو تازہ ترین صورتحال پیدا ہو رہی ہے وہ بظاہر بڑی گھمبیر ہے کہ روزانہ اخبارات میں خفیہ حساس اداروں کی جانب سے ایک احتیاطی اور حفاظتی مراسلہ شائع ہوتا ہے کہ جس میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے اثرات سے محفوظ رکھنے کی ہدایات ہوتی ہیں ۔
بھارت جوکہ ہمارا ایک فطری اور مستقل دشمن ہے اس کی جانب سے روزانہ کنٹرول لائن پر بے وجہ عملی اشتعال انگیزی کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے اور دوسری جانب سے اسکے نجانے کتنے کلبھوشن جاسوس پاکستان میں اندرونی دہشت گردی کی نگرانی کر رہے ہوتے ہیں اور پاکستان کی قیمتی املاک کے علاوہ سادہ لوح عوام الناس کی قیمتی جانوں کو تلف کرنے کا مکروہ دھندہ بھی جاری رکھتے ہیں۔ حکومت اور عوام الناس کے باہمی اعتماد کی بحالی کے بغیر یہ سب کچھ اسی طرح جاری رہے گا۔ بہت ضروری ہے کہ ہماری حکومت عوام کے جذبہ حب الوطنی کی قدر کرتے ہوئے صحیح خطوط پر سوچے۔