اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے بلوچستان اسمبلی کے حلقہ پی پی 39 سے عام انتخابات میں ہارنے والے امیدوار سردار عارف کی جانب سے دائر نظرثانی اپیل خارج کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ بادی النظر میں ووٹوں کی تصدیق کے لیے نادرا سے مدد لینا درست نہیں ہے۔ ووٹوں کے درست یا غلط ہونے کے بارے میں فیصلہ کرنا الیکشن کمشن کا کام ہے۔ جسٹس دوست محمد خان نے ریمارکس دئیے بدقسمتی سے ملک کے انتخابی عمل میں بیلٹ کی بے حرمتی ہوتی ہے۔ اگر ہم ان معاملات کی گہرائی میں چلے گئے تو بہت سے ارکان پارلیمنٹ نا اہل ہو جائیں گے۔ ملکی و سیاسی جماعتیں فالٹ لائن پر ہیں۔ اگر سیاسی پارٹیاں گھر گھر اور گلی گلی جا کر منشور کی بنیاد پر انتخابات لڑیں تو صورتحال مختلف ہو۔ 1970 کے انتخابات میں ہم نے دیکھا کہ لوگوں کے پاس دو وقت کی روٹی نہیں تھی‘ پہننے کو کپڑے نہیں تھے لیکن کوئی اپنا ووٹ ایک لاکھ روپے کے عوض بھی فروخت کرنے کو تیار نہیں تھا اس وقت لوگ پیدل اور گدھاگاڑیوں پر ووٹ ڈالنے جاتے تھے۔ اب تو امیدوار سینکڑوں گاڑیاں فراہم کرتے ہیں۔ اب سیاستدان دوبارہ وہی نظام کیوں نہیں لاتے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ سیاستدانوں کے اپنے بس کی بات ہے کسی کی بات زیادہ چلتی ہے کسی کی کم چلتی ہے۔ گزشتہ دو تین انتخابات کا مشاہدہ قوم کے سامنے ہے۔ 1970ء تک سیاسی جماعتیں منشور کے تحت الیکشن لڑتی تھیں اور لوگ منشور مدنظر رکھ کر ووٹ دیا کرتے تھے۔ اس کے بعد کھیل بگڑ گیا اور نظام کسی اور جانب چلا گیا لیکن اس نظام کو بگاڑنے والے بھی یہی ارکان پارلیمنٹ تھے۔ جسٹس دوست نے کہا عدالت نے طے کر دیا ہے کہ الیکشن کمشن انتخابات میں ہونے والی کرپٹ پریکٹس کا نوٹس لے گا۔ خواجہ آصف کیس میں تمام پہلوؤں پر فیصلہ دے دیا گیا ہے کہ انتخابات میں عملے کی کوتاہی کا ذمہ دار جیتنے والا امیدوار نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا الیکشن اور جوئے میں ایک چیز مشترک ہوتی ہے کہ مخالف ایک پتے سے جیت جاتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ووٹ تصدیق کرانے کے لئے نادرا کو بھجوانے کا عمل ناقابل فہم ہے۔ اس حوالے سے کوئی قانون بھی موجود نہیں ہے۔ اگر یہ ضروری ہے تو قانون سازی کرنا قانون سازوں کا کام ہے۔ نادرا کے پاس شناختی کارڈ جاری کرنے کے وقت اور صورتحال ہوتی ہے جبکہ پولنگ سٹیشن پر تو لائنیں لگی ہوتی ہیں۔ جسٹس دوست محمد خان نے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا نادرا کو ووٹوں کی تصدیق کے اختیارات حاصل ہیں تو کامران مرتضیٰ نے کہا کہ قانون تو موجود نہیں تاہم یہی طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے جس پر جسٹس دوست محمد خان نے کہا ووٹوں کی تصدیق کے لئے نادرا سے مدد لینا غیرمتعلقہ ہے اس کو مینڈیٹ حاصل نہیں کہ ووٹوں کی تصدیق کرے۔ یہ اختیار الیکشن کمشن کے پاس ہے۔ اگر ہم یہ اختیار نادرا کو دے دیں تو یہ غیرقانونی عمل ہو گا۔ بعدازاں عدالت نے اپنے حکم میں قرار دیا کہ نظرثانی اپیل میں جو نقاط اٹھائے گئے ہیں۔ ان پر پہلے ہی عدالت نے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر فیصلے دے دیئے ہیں اس لئے اپیل خارج کی جاتی ہے۔