اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ آئی این پی) پارلیمانی کمیٹی برائے احتساب قانون میں مجوزہ قومی احتساب کمشن کے چیئرمین کی اہلیت پر اختلاف پیدا ہوگیا، اپوزیشن کی بڑی جماعت تحریک انصاف نے مشاورت کیلئے وقت مانگ لیا، تحریک انصاف نے بھی پیپلزپارٹی کی طرح چیئرمین قومی احتساب کمشن کے معیار کو اوپن چھوڑنے کی تجویز دے دی، قرض نادہندگان کے مقدمات قومی احتساب کمشن کے دائرہ کار میں نہیں آئیں گے، کمیٹی میں الزامات کی منصفانہ تحقیقات کیلئے ’’آزاد و خودمختار تفتیشی ایجنسی‘‘ کے قیام اور احتساب جج کی تقرری کے طریقہ کار میں تبدیلی پر بھی اتفاق ہوگیا جس کے تحت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو ہی متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی مشاورت سے احتساب جج مقرر کیا جا سکے گا۔ پارلیمانی کمیٹی برائے احتساب قانون کا اجلاس چیئرمین کمیٹی وزیرقانون و انصاف زاہد حامد کی صدارت میں پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔ قومی احتساب کمشن کی مزید مجوزہ شقوں پر بریفنگ دی گئی۔ اجلاس میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم، اے این پی، ق لیگ اور دیگر جماعتوں کے دونوں ایوانوں سے نامزد نمائندوں نے شرکت کی۔ زاہد حامد نے کہا نیب کے متبادل قومی احتساب کمیشن کے قیام پر ناصرف مکمل طور پر اتفاق رائے ہوگیا ہے بلکہ اس کمشن کی تشکیل کیلئے حکومتی کاوشوں کی تمام جماعتوں نے تعریف کی ہے۔ انہوں نے کہا چیئرمین قومی احتساب کمشن کی تقرری کے طریقہ کار پر مشاورت کیلئے تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی نے وقت مانگ لیا ہے مجوزہ قانون کے تحت اعلیٰ عدلیہ کا صرف حاضر سروس جج ہی چیئرمین قومی احتساب کمیشن مقرر ہوسکتا ہے جبکہ تحریک انصاف نے اس اہلیت کو اوپن چھوڑنے یعنی عدلیہ کے علاوہ دیگر شعبوں سے چیئرمین احتساب کمشن کی تقرری کی تجویز دی ہے۔ انہوں نے بتایا الزامات کی منصفانہ تحقیقات کیلئے آزاد ومختار تفتیشی ایجنسی کی تشکیل پراتفاق رائے ہوگیا ہے، مقدمات کی تحقیقات کا اختیار ایف آئی اے کو نہیں ہوگا بلکہ متذکرہ ایجنسی منصفانہ طریقے سے اس کی تحقیقات کرسکے گی اور اس ایجنسی کے تحت چیف پراسیکیوٹر و اسٹنٹ پراسیکیوٹر کی تقرری ہو سکے گی جو ریفرنس کی منظوری حاصل کرکے چالان عدالت میں پیش کرسکیں گے۔ انہوں نے بتایا ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہی احتساب جج ہوسکے گا اس بارے میں چیف جسٹس ہائیکورٹ کی مشاورت لازمی ہو گی۔ انہوں نے کہا کمیٹی میں اس بات پر بھی اتفاق رائے ہوگیا ہے کہ بدعنوانی اور بدعنوان عمل کی واضح تشریح کی جائے گی، قرضوں کے حوالے سے نادہندگی کے مقدمات قومی احتساب کمشن کے دائرہ کار میں نہیں آئیں گے بلکہ اس کیلئے دیگر مالیاتی قوانین کا اطلاق ہوگا۔ زاہد حامد کے مطابق مجوزہ احتساب کمیشن کا قانون تمام ارکان میں تقسیم کر دیا گیا ہے اور تمام ارکان نے مسودہ پر مثبت رائے دی ہے اور کہا ہے کہ حکومت نے احتساب کمشن کے قیام کیلئے اچھی بنیاد رکھی ہے۔