یکم فروری کو پاکستان کے تمام نیوز چینلز پر 6 گھنٹے تک یہ خبر چھائی رہی کہ ’’وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے برادر مُلک قطر کے امیر کو پی آئی اے کے خصوصی طیارے C-130 کے ذریعے نایاب اور اعلیٰ نسل کا گھوڑا تحفے کے طور پر بھجوا دِیا گیا ہے اور اُس گھوڑے کو قطر پہنچانے کے لئے اُس کے ساتھ طیارے میں 13 رُکنی وفد شاید (Grooms) کا بھی بھجوایا گیا ہے ۔ پورے 6 گھنٹے تک الیکڑانک میڈیا پر اُس ’’نایاب اور اعلیٰ نسل کے اُس گھوڑے‘‘ اور جنابِ وزیراعظم اور اُن کے خاندان کے امیرِ قطر اور قطر کے شہزادوں سے دوستانہ تعلقات پر بحث ہوتی رہی۔
پانامہ لِیکس کیس کی سماعت کے لئے لارجر بنچ میں شامل سپریم کورٹ کے ایک فاضل جج جسٹس عظمت سعید کی علالت کی وجہ سے اگر سماعت ملتوی نہ ہو گئی ہوتی تو کوئی بھی وکیل صاحب گھوڑے کے بارے میں بھی کوئی نُکتہ اُٹھاتے ۔ وفاقی وزیر مملکت برائے اطلاعات محترمہ مریم اورنگ زیب نے 6گھنٹے بعد میڈیا کو بتایا کہ ’’فی الحال امیر قطر کو زیر بحث گھوڑا نہیں بھجوایا گیا‘‘ اور یہ کہ ’’امیرِ قطر کو کچھ ماہ پہلے پاکستان کے دورے پر تشریف لانا تھا اور اُس وقت اُنہیں وہ گھوڑا پیش کِیا جانا تھا۔ اِس لئے C-130 پر گھوڑے کی روانگی کی خبر غلط ہے‘‘۔
محترمہ اورنگ زیب نے فی الحال یہ نہیں بتایا کہ ’’نایاب اور اعلیٰ نسل کا زیر بحث گھوڑا کب تک حکومتِ پاکستان کے کِس محکمے کی حفاظت میں رہے گا؟ اور اُس گھوڑے کو لے جانے کے لئے قطر کے امیر کب پاکستان تشریف لائیں گے؟۔کیا شریف خاندان کی صفائی میں سپریم کورٹ میں پیش کئے گئے قطری شہزادے کے دو خطوں کا معاملہ طے ہو جانے کے بعد؟۔ بہرحال یہ بات تو صاف ہے کہ ’’وزیراعظم صاحب کی طرف سے امیر قطر کو گھوڑا تحفے میں دینا "Horse Trading" ہرگز نہیں ہے۔ ہارس ٹریڈنگ تو اُس وقت ہوتی یا ہوگی جب موصوف اپوزیشن کے کچھ ارکانِ پارلیمنٹ کو مسلم لیگ ن میں شامل کرلیتے یا کر لیں گے؟۔
یوں تو گھوڑے پوری دُنیا میں پائے جاتے ہیں لیکن عام طور پر عربی گھوڑا ( اسپِ تازی) دُنیا کے سارے گھوڑوں میں اعلیٰ سمجھا جاتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے امیرِ قطر کو تحفے میں دیئے جانے کے لئے مخصوص کیا جانے والا گھوڑا کسی عربی گھوڑے سے بھی اعلیٰ ہے؟۔ کیا اُس گھوڑے کے باپ‘ دادا کو کسی پرانے دَور میں عرب ملک سے پاکستان (یا متحدہ ہندوستان) میں لایا گیا تھا ؟۔ ہندوستان کے شہر ’’بریلی کے بانس بہت مشہور تھے ۔ بانس کے وہ تاجر جو فروخت کرنے کے لئے یا کسی کو تحفہ میں دینے کے لئے کسی شہر سے اپنے بانس بریلی میں لے جائیں یا بھجوائیں تو اُن کے لئے ضرب اُلمِثل ہے ’’اُلٹے بانس بریلی کو‘‘ یعنی ’’بریلی کو بانس لے جانا یا بھجوانا خسارے اور حماقت کا کام ہے‘‘۔گھوڑے کو وفادار جانور یا غازی مرد کہا جاتا ہے لیکن پنجابی کے معروف سیّد وارث شاہ کہتے ہیں کہ … ؎
’’وارثؔ رَن، فقِیر، تلوار، گھوڑا،
چارے تھوک ایہہ، وفادار ناہیں‘‘
یعنی ’’ اے وارث! عورت، فقیر، تلوار اورگھوڑا ہرگز کسی کے وفادارنہیں ہوتے‘‘۔ دُلدل بھی ایک گھوڑا یا گھوڑی تھی جو حاکمِ سکندر یہ نے رسول مقبولؐ کو تحفے میں بھجوائی تھی اور آپؐ نے اُسے حضرت علیؓ کو عطا کیاتھا۔ اب دُلدل، اُس گھوڑے کو بھی کہتے ہیں جِس پر سامانِ ماتم لاد کر عشرۂ محرّم میں عزاخانہ میں لے جاتے ہیں ۔ فارسی کے نامور شاعر حافظ شیرازی نے اپنے دَور کے بادشاہوں کے درباروں کے بارے میں کہا تھا کہ … ؎
’’اسپِ تازی، شُدہ مجرُوح بزیر پالاں
طوقِ زَرّیں، ہمہ در گردنِ خر، می بِینم‘‘
یعنی ’’عربی گھوڑا پالان کے نیچے زخمی ہوگیا ہے اور مَیں سونے کا طوق گدھے کی گردن میں دیکھ رہا ہُوں‘‘۔ حافظ شیرازی اگر آج ہوتے تو یہی کہتے ’’دُنیا کی تاریخ میں صِرف ایک گدھا ایسا ہے جو احترام کے قابل ہے‘‘۔ وہ گدھا جِس پر حضرت عیسیٰ ؑسوار ہُوئے تھے اور اُن کے حواریوں نے یروشلم میں آپؑ کا جلوس نکالا تھا لیکن خرِ عیسیٰ ؑ کے بارے میں اہلِ فارس نے یہ ضرب اُلمِثل گھڑی ہے کہ ’’خرِ عیسیٰ ؑ اگر بمکّہ رَود، چُوں بیا ید ہنُوز خَر باشد‘‘۔ یعنی اگر حضرت عیسیٰ ؑ کا گدھا مکہ معظمہ بھی گھوم آئے تو بھی وہ گدھا ہی رہتا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ ہمارے وزیراعظم نے امیر قطر کو تحفے میں دینے کے لئے جِس گھوڑے کی ساخت پر داخت کا بندوبست پاکستان میں کِیا گیا تو وہ واقعی امیر قطر کو تحفے میں دیئے جانے کے قابل ہوگا اور وہ امیر قطر کے اصطبل میں عربی گھوڑوں کے برابر کھڑا ہوتے ہُوئے ’’احساسِ کمتری‘‘ میں مُبتلا نہیں ہوگا؟۔ دُنیا کے حکمرانوں کا ایک دوسرے کو تحفے دینے کا رواج ہے۔ دشمنوں کو بھی۔ غازی صلاح اُلدّین ایوبی نے ایک صلیبی جنگ کے دوران اپنے دشمن انگلستان کے بادشاہ "Richard Lion Hearted" ( رچرڈ شیر دل) کو لڑنے کے لئے گھوڑا پیش کردِیا تھا۔
’’شیر کی شبِیہ برطانیہ کے قومی نشان یا نسبی نشانوں میں شامل ہے۔ مسلم لیگ ن کا انتخابی نشان بھی شیر ہے۔ ظاہر ہے کہ وزیراعظم نواز شریف، امیر قطر کو ’’زندہ شیر‘‘ تو تحفے میں نہیں بھجوا سکتے تھے اور نہ ہی اُسے بحفاظت بھجوانے کے لئے اُس کے ساتھ اپنے فیصل آبادی وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی کو؟ دوحہ ائر پورٹ پر ہمارے سفیر جناب شہزاد احمد اُن کے استقبال میں یہ نعرہ بھی نہیں لگا یا لگوا سکتے تھے کہ ’’دیکھو، دیکھو! کون آیا، شیر آیا، شیر آیا‘‘۔
’’مفسر نظریۂ پاکستان‘‘ ڈاکٹر مجید نظامی بھارت کے چنگل سے مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کے لئے قرآن پاک کی سُورۃ الانفال کی آیت نمبر 60 کے حوالے سے، پاکستان کے ہر دَور کے حُکمران کو تلقین کِیا کرتے تھے کہ ’’اور جہاں تک ہو سکے (فوج کی جمعیت کے زور پر) اپنے گھوڑوں کو تیار رکھیں اور (مقابلے کے لئے) مستعد ہو کر اُس سے اللہ کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں اور اُن کے علاوہ جنہیں تم نہیں جانتے (اور اللہ جانتا ہے) پر تمہاری ہیبت بیٹھی رہے اور تم جو کچھ اللہ کی راہ میں (عوام کی بھلائی پر) خرچ کرو گے، اُس کا ثواب تمہیں پورا کِیا جائے گا اور تمہارا ذرّہ بھر بھی نقصان نہیں ہوگا‘‘۔ ’’شاعرِ پاکستان‘‘ جناب حفیظ جالندھری نے ’’غزوہ بَدر‘‘ کا تذکرہ کرتے ہُوئے کہا تھا … ؎
’’تھے اُن کے پاس دو گھوڑے، چھ زرہیں، آٹھ شمشِیریں
پلٹنے آئے تھے، وہ لوگ دُنیا بھر کی تقدِیریں‘‘
آج اِسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے پاس ایٹم بم ہے ۔ حکمرانوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ دُنیا کی دوسری بڑی ایٹمی قوت ’’سوویت یونین‘‘ کے ٹوٹنے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی تمام ریاستوں کے لوگوں کے لئے روٹی، کپڑا، اور مکان کا بندوست نہیں کرسکی تھی۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، امیر قطر اور دوسرے بادشاہوں سے تحفوں کا تبادلہ کرنا دُنیا اور آخرت میں فائدہ مند نہیں ہوگا۔ قطر کے لئے "Pakistan's Horsepower For Qatar" سے بھی پاکستان کے بھوکے، ننگے اور بے گھر عوام سے دُعائیں نہیں مِل سکتیں!۔