نہال ہاشمی، یوم حساب، عبرت کا نشان

سیاست و مذہب میں شخصیت پرستی کا رواج عام ہے۔ وطن عزیز میں تو یہ صورتحال ہے کہ اپنے محبوب سیاسی قائد اور روحانی و مذہبی پیشوا کی حمایت میں سیاسی کارکنان اور عقیدت مند، اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ بظاہر تو وجہ یہی سمجھ آتی ہے کہ ہم بحیثیت قوم سیاست اور مذہب کے معاملے میںعدم برداشت اور اپنے قائدین کے لیے ضرورت سے زیادہ ہی خوش فہمی کا شکار ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ تو اس کا جواب یہی ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ، ہم اپنی منزل کا تعین کرنے میں ناکام رہے ہیں کیونکہ قوم کو اب تک کوئی ایسا رہنما میسر ہی نہیںآیا، جس پر تمام صوبوں کے عوام کا اعتماد ہو۔ امور مملکت چلانے کے لیے کبھی صدارتی نظام، کبھی پارلیمانی نظام، حتی کہ مارشل لاء کا تجربہ بھی کرلیا گیا لیکن نتیجہ سقوط ڈھاکہ کی صورت میںقوم کو بھگتنا پڑا۔ ستر کے انتخابات لیگل فریم آرڈر کے تحت دستور ساز اسمبلی کے لیے تھے ا ور نومنتخب اسمبلی کو پابند کیا گیا تھا کہ چار ماہ میں متفقہ آئین تشکیل دے۔ انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کیے جانے اور دیگر سیاسی و لسانی وجوہ کی وجہ سے سقوط ڈھاکہ پیش آیا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد، زمام اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ آئی۔ بھٹو مرحوم کی قیادت میں عبوری قانون ساز اسمبلی نے قوم کو متفقہ آئین کا تحفہ دیا لیکن اس آئین پر مکمل عمل درآمد کبھی بھی نہیں ہوا۔ 

ذوالفقار علی بھٹو وطن عزیز کے مقبول و محبوب سیاسی رہنما تھے لیکن جلد ہی مارشل لاء کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو جیسی مقبولیت کسی بھی سیاسی رہنما کو اب تک حاصل نہیں ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی کا ہر سیاسی جلسے میںنعرہ ’ زندہ ہے ، بھٹو زندہ ہے ‘ اب بھی سب سے مقبول نعرہ ہے۔ بھٹو صاحب کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے عوام میں پذیرائی حاصل کی لیکن انتشار زدہ سیاسی و مذہبی بربریت کا شکار ہوئیں۔ اس وقت نواز شریف اور عمران خان وطن عزیز کے مقبول سیاسی رہنما ہیں۔ جمہوری ثقافت پے در پے مارشل لاء کی وجہ سے کبھی بھی مستحکم نہیں ہوسکی ہے۔ ہر جمہوری حکومت کو ہمیشہ یہ شکوہ رہتا ہے کہ ہماری حکومت کے خلاف غیرجمہوری قوتیں سازش کررہی ہیں او ر سیاسی تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ یہ شکوہ کسی حد تک بجا بھی ہے۔ مسلم لیگ (ن ) کی موجودہ حکومت بھی اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی، ان مبینہ سازشوں کا شکوہ کر رہی ہے۔ ان سازشوں کا تذکرہ کرنے کی پاداش میں، وفاقی حکومت کے دو وفاقی وزراء کو استعفا بھی دینا پڑا۔
عداالت عظمی میں جب پانامہ کیس کی سماعت کا آغاز ہوا ، تو اس کے ساتھ ہی سیاسی کشیدگی میں بھی مزید اضافہ دیکھنے میں آیا۔ سیاسی و جمہوری عدم استحکام کی وجہ سے کارکنان کی سیاسی انداز میںتربیت دینے کا موقع کسی بھی سیاسی جماعت کو اب تک نہیں ملا ہے ۔ اس وجہ سے ہر جماعت کے سرکردہ رہنما اور کارکنان، اپنے قائد کے دفاع اور حمایت میں تمام حدود کو پھلانگ جاتے ہیں اور سیاسی مخالفت کو ذاتی مخاصمت میں تبدیل کردیتے ہیں ۔ اس طرح کی انتشار زدہ سیاسی فضا کاغیر جمہوری عناصر نے ہمیشہ فائدہ اٹھایا ہے۔ لیکن اتنا سب کچھ ہوجانے کے باوجود بھی سیاست دان سیاسی سمجھ بوجھ سے قاصر نظر آتے ہیں ۔ سینیٹرنہا ل ہاشمی نے بھی ایک تقریب میں اپنے محبوب قائد کی عقیدت میں غیر سیاسی تقریر کی اوردھمکی آمیز لہجہ اور الفاظ استعمال کیے، اس طرح کی تقاریر خود اپنی سیاسی قبر کھودنے کے مترادف ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے جب تقریر منظر عام پر آئی، تومسلم لیگ (ن) کے ترجمان نے بھی نہال ہاشمی کی تقریر سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور مذمت کی۔ سابق وزیراعظم محترم نواز شریف کی ہدایت پرنہال ہاشمی نے استعفا تو دے دیا لیکن پھر واپس بھی لے لیا ور سینیٹ میں براجمان ہوگئے۔ نہال ہاشمی کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے، جماعت نے سیاسی خدمات کے اعتراف میں کسی نہ کسی طرح ان کو پنجاب سے سینیٹ کی نشست دلادی، پس پردہ نہال ہاشمی کے سیاسی عزائم کا بھانڈا، ان کی تقریر میں پھوٹ گیا، جب انہوں نے جے آئی ٹی کے اراکین اور عدالت عظمی کے ججز کو براہ راست مخاطب کرکے سر عام دھمکیاںدیں ، حاضر سروس جے۔ آئی۔ ٹی اراکین اورججز کو عبرت کا نشان اور ان کی اولادوں کے لیے وطن عزیز کی زمین تنگ کرنے کی دھمکی دی۔ نہال ہاشمی کی تقریر کے اثرات پانامہ کیس میں بھی دکھائی دیے اور سابق وزیر اعظم نے اس کا نقصان بھی اٹھایا۔
سینیٹر نہال ہاشمی پر توہین عدالت کا مقدمہ قائم ہوا، تو انہوں نے عدالت عظمی سے غیر مشروط معافی مانگی کیونکہ صفائی میں کچھ کہنے کو نہیں تھا۔ عدالت عظمی نے فیصلہ محفوظ کیا ہوا تھا ، آج عدالت نے عظمی نے سینیٹر نہال ہاشمی کا یوم حساب مقرر کیا تھا۔ عدالت عظمی نے اپنے فیصلے میں نہال ہاشمی کی غیرمشرو ط معافی کی درخواست کو مسترد کردیا اور ایک ماہ سزاو جرمانے کے ساتھ، پانچ سال کے لیے پارلیمان کا رکن بننے پر پابندی لگادی ۔ عدالتی فیصلے میں جہاں نہال ہاشمی کو عبرت کا نشان بنایا گیا ، وہیں پانچ سال کے لیے ایوان اور ایوان بالا کا فلور استعمال کرنے پر بھی پابندی لگ گئی۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...