کوئی موازنہ ہی نہیں۔ نوازشریف کی کارکردگی کے سامنے ان کے مخالفین ڈھیر نظر آتے ہیں۔ نواز شریف نے اپنے مخالفین کو چیلنج کیا ہے کہ وہ اپنے گریبان میں جھانکیں تو ان پر یہ حقیقت آشکارا ہو جائے گی اور سب پتہ چل جائے گا کہ ن لیگ نے ملک میں ترقی و تعمیر کے منصوبے مکمل کئے ہیں جبکہ مخالفین ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہے، لاہور، پنڈی اور ملتان کی میٹرو کو جنگلہ بس کہنے والوںنے چار سال ضائع کر دیئے، اب الیکشن سر پہ ہیں تو انہیں میٹرو یاد آ گئی ہے اور گرین لائن کی یاد بھی ستانے لگی ہے۔ ن لیگ نے تین برسوں میں ہزاروں میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے نئے کارخانے لگائے، جبکہ پی ٹی آئی ستانوے میگا واٹ کے منصوبہ کا رونا رو رہی ہے جو ادھورا پڑا ہے۔
لاہور کے چیئرنگ کراس پرخالی کرسیوں نے ایک دھرنا دیا جس سے قادری، عمران، زرداری اور درجنوں اپوزیشن لیڈروں نے خطاب کیا اور پنجاب میں جرائم پر احتجاج کیا۔ مگر یہ کیا کہ عمران کی پارٹی کی حکومت مردان اور ڈیرہ اسماعیل خان کے دو سانحوں کی دلدل میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ پنجاب پولیس نے تو زینب کا قاتل گرفتا ر کر لیا مگر مردان کے سانحے کا مجرم ابھی تک پولیس کے ہتھے نہیں چڑھا، خالی کرسیوں کو عمران خان کا یہ دعویٰ بار بار یاد آ رہا ہے کہ آﺅ، پشاور میں دیکھو کہ پولیس اصلاحات کے بعد کیا انقلاب آ چکا ہے۔ اسی زبان میں جناب زرداری نے بھی پنجاب حکومت پر تنقید کی اور اپنی حکومت کے گن گائے۔ ابھی اس دعوے کی گونج خالی کرسیوں کے کان کھائے چلی جا رہی ہے اور اس دوران زرداری حکومت کی کارگزاری کا پول کھل گیا ہے۔ دن دیہاڑے قتل عام کرنے والا راﺅ انوار قانون کی گرفت سے باہر ہے اور یوں غائب ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ کیا وہ کوئی ہوائی شے ہے۔ جج پوچھتے ہیں کیا راﺅ انوار چارٹر طیارے میں ملک سے فرار ہو گیا۔ صوبے کا آئی جی کہتا ہے کہ وہ راﺅ انوار کی گرفتاری کی تاریخ نہیں دے سکتا اور میڈیا کہہ رہا ہے کہ راﺅ انوار کراچی میں موجود ہے اور میڈیا کو انٹرویو دے رہا ہے، عدلیہ نے اس کے انٹرویو نشر کرنے پر پابندی لگا کر حکومت کو جگ ہنسائی سے بچا لیا ہے۔
ابھی راﺅ انوار کے قصے الف لیلیٰ کی شہرت کو مات دے رہے تھے کہ اتنے میں سندھ کے صوبائی وزیر کی خود کشی اور بیوی کے قتل کا معمہ سامنے آ گیا۔ بلاشبہ یہ ایک خاندان کے لئے المیئے کی حیثیت رکھتا ہے مگر پیپلز پارٹی اس سانحے پر ذرا شرمندہ دکھائی نہیں دیتی۔ اس نے تین دن کے سوگ کا اعلان کیا ہے اور میر ہزار خان بجارانی کو پارٹی اور بھٹو کا دیرینہ ساتھی قرار دیا جا رہا ہے۔ مگر وہ بھول گئے ہیں کہ بجارانی صاحب ایک عشرے تک پارٹی کو چھوڑ گئے تھے۔
دو روز قبل زرداری نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ آئندہ حکومت پنجاب میں بنائیں گے۔ شاید وہ پنجاب کو بھی سندھ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ کرچی کے امن کو رینجرز نے بحال کر دیا تھا مگر صوبائی حکومت کی طرف سے پولیس کو قتل عام کی اجازت دینے سے پاکستان کی شہہ رگ قرار دیئے جانے والا شہر اس قدر بد امنی کا شکار ہو گیا ہے کہ روز جعلی مقابلوں میں لوگوں کو پار کیا جا رہا ہے اور اب ایک صوبائی وزیر نے پولیس رپورٹ کے مطابق پہلے اپنی بیوی کو قتل کیا۔ پھر خود کشی کر لی۔ یہ ہے زرداری حکومت کا سندھ میں حال، وہ پنجاب کو بھی بے حال کرنا چاہتے ہیں۔ اس کارگزاری کو دیکھتے ہوئے انسان یہ دعا ہی کر سکتا ہے کہ اللہ پنجاب اور باقی پاکستان کو زرداری کے سائے سے محفوظ رکھے۔ یہ وہی زرداری ہیں جن کی حکومت کے دور میں بھٹو کے صاحبزادے مرتضی بھٹو کو کراچی کی شاہراہ پر سرعام قتل کیا گیا۔ یہی زرداری ہیں جنہوں نے پانچ سال تک ملک پر حکومت کی مگر اپنی بیگم کی شہادت کی تفتیش کروا کر ان کے قاتلوں کا سراغ نہیں لگایا بلکہ انہوںنے جس پارٹی کو قاتل لیگ کہا، اس کے ایک لیڈر کو ڈپٹی وزیراعظم بنا لیا۔ انہی زرداری صاحب کی پارٹی ہمیشہ سندھ میں حکومت کرتی رہی ہے مگروہ ایک لیاری ایکسپریس کو پندرہ سال میں مکمل کر پائے۔ ان کی ترقیاتی سکیموں کی رفتار پر کون رشک کر سکتا ہے۔ ان کے دور حکومت میں ملک پر لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے جو اندھیرے چھائے تھے، وہ قوم کے مقدر کی سیاہی بن گئے۔
عمران خان تو پارلیمنٹ میں قانون سازی کا تجربہ تک نہیں رکھتے صرف کرکٹ ٹیم پر ڈنڈہ چلا لینے سے تو گورننس کی صلاحیت کا سرٹی فیکیٹ جاری نہیں کیا جا سکتا، ان کے نئے ساتھی قادری صاحب مستقل رہائش کینیڈا شریف میں رکھتے ہیں مگر انقلاب پاکستان میں لانا چاہتے ہیں، ان کے ذہن کے کسی کونے میں امام خمینی کی تصویر سجی ہے جو پیرس سے تہران اترے تو ایران میں اسلامی انقلاب ٹھاٹھیں مارنے لگا۔ قادری صاحب بھی انقلاب لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر شاید صرف چائے کی پیالی کے اندر۔
عمران خان کی گورننس کا شعبدہ لوگوں نے اچھی طرح دیکھ لیا ہے۔ وہ ڈرون حملوں کے خلاف تھے مگر چند روز قبل ہی ڈرون حملہ ہو گیا۔ وہ پنجاب پولیس کو طعنے دے رہے تھے مگر ان کے صوبے کی پولیس تو بالکل ہی نااہل نکلی، کسی جرم کا سراغ لگانا اس کے بس سے باہر ہے۔ عمران خان اس پولیس کی خوش اخلاقی کے گن گاتا ہے مگر وہ اس قدر خوش اخلاق نکلی کہ مجرموں پر ہاتھ ڈالنے کو بھی بد اخلاقی تصور کرتی ہے۔
اس پس منظر میں میاںنواز شریف نے بجا طور پر شکوہ کیا ہے کہ موٹرویز بنانی ہوں تو ن لیگ بنائے۔ سی پیک کی تکمیل کرنی ہو تو ن لیگ کرے، لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کرنا ہو تو ن لیگ کرے اور حکومت پھر بھی ن لیگ کی غیر مستحکم کی جائے۔ باقی پارٹیاں بس اچھل کود کرتی رہیں۔
چلتے چلتے پیپلز پارٹی کے بانی بھٹو صاحب کی جمہوریت پسندی کا نمومہ پیش خدمت ہے۔ انہوں نے قوم کو متفقہ دستور دیا اور ساتھ ہی آئین کی شقیں معطل کر کے ایمرجنسی نافذ کر دی۔ اسمبلی میں چھوٹی سی اپوزیشن ان کی برداشت سے باہر تھی۔ اسے اٹھا کر ایوان سے باہر پھینکوا دیا اور پھر اپنے ہی ساتھیوں کو تختہ مشق بنانا شروع کر دیا۔ کیا آپ معراج محمد خان کے انجام سے واقف ہیں۔ کیا آپ دلائی کیمپ کو تو نہیں بھول گئے اور کیا آپ کو یاد ہے کہ ستتر کے الیکشن میں کتنی بڑی دھاندلی کی گئی کہ قوم نے صوبائی الیکشن کا بائیکاٹ کر کے سڑکوں پر احتجاج کرنا شروع کر دیا۔
آپ کو یہ تو یاد ہو گا کہ ستر کے الیکشن کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا تو بھٹو صاحب نے دھمکی دی تھی کہ جو شخص اس اجلاس میں شرکت کے لئے ڈھاکہ جائے گا، اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ یہ ہے وہ جمہوری نظام جو اپوزیشن پارٹیاں اس ملک پر مسلط کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ اللہ بچائے!
٭٭٭٭٭