مرزا غالب اگرچہ بنفسِ نفیس کشمیر نہیں گئے اور نہ اپنی آنکھوںسے اس جنت نظیر وادی کا نظارہ کیا۔ لیکن دیگر شعراء اور احباب کی وساطت سے کشمیر کے فطری حسن کی تعریفیں ضرور سُنیں۔ اسی لیے کشمیر کے بارے میں غالب نے یوں کہا:
َمیرؔ کے شعر کا کیا حال بیاں ہو غالبؔ
جس کا دیوان کم از گلشنِ کشمیر نہیں
یہ وہی زمینی جنت ہے جس پر گذشتہ کئی دہائیوں سے بھارت نے ناجائز قبضہ جما رکھا ہے۔ اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق وہاں رائے دہی کا انعقاد بھی کرنے سے منکر ہے۔ بلکہ اُلٹا کشمیر کو بھارت کا ’’اٹوٹ انگ‘‘ قرار دے رہا ہے ۔ لیکن شاید بھارت یہ نہیں جانتا کہ یہ اٹوٹ انگ ہی بھارت کے انگ انگ کے ٹکڑے کر کے رکھ دے گا۔ کیونکہ اس وقت تحریکِ آزادیٔ کشمیر اپنے عروج پر ہے اور کشمیری مجاہدین کے حوصلے آسمان کو چُھو رہے ہیں۔ پھر انہیں پاکستان کی اخلاقی‘ سفارتی اور عوامی حمایت بھی حاصل ہے۔ پاکستان نے بارہا یہ کوشش کی ہے کہ بھارت کو مذاکرات کی میز پر لایا جا سکے۔ دو تین مرتبہ یہ نوبت آئی بھی لیکن بھارت چونکہ جانتا ہے کہ اس کا مؤقف کمزور ہے اور وہ دلائل سے کشمیر کو اپنا حصہ ثابت نہیں کر سکتا لہٰذا ہر بار مذاکرات کی میز سے اُٹھ کر بھاگ جاتا ہے۔
میاں محمد نواز شریف نے اپنے حالیہ دورِ حکومت میں ہر فور م پر کشمیر کا مسئلہ اُٹھایا اور دنیا کو بتایا کہ کشمیری بے گناہ عورتوں‘ بچوں اور بوڑھوں پر بھارت کس قدر مظالم ڈھا رہا ہے۔ لیکن اقوامِ عالم کے کان پر بھی جُوں تک نہیں رینگی۔ کیونکہ ٹرمپ نے آتے ہی بھارت کو اپنی بغل میں لے لیا ہے اور اسے اس خطے کا تھانیدار بنانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ وہ تو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی پاور ہے ورنہ بھارت اور امریکہ تو کب کے ہمیں نگل چکے ہوتے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے باہم اختلافات سے قطعِ نظر ہر سیاسی جماعت کشمیرکو پاکستان کی شہ رگ گردانتی ہے اور آزادیٔ کشمیر کی حامی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ صرف یومِ کشمیر منانے سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو گا۔ ہمیں اس سے آگے جانے کی ضرورت ہے۔ یعنی عملی طور پر کچھ کرنا ہو گا۔ یہ درست ہے کہ اب جنگوں کا زمانہ نہیں رہا اور نہ جنگ کسی مسئلے کا حل ہوتی ہے‘ لیکن مذاکرات کے دروازے ہمیشہ کھلے رہنے چاہئیں اور بھارت کو پھر سے مذاکرات کی طرف لانا ہو گا۔ علاوہ ازیں دنیا کے تمام معتبر اور بڑے ملکوں کو اس سلسلے میں اپنا ہمنوا بنانا ہو گا۔ یہی ہماری خارجہ پالیسی کی کامیابی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے ایک تاریخی مضمون چھٹی جماعت سے لے کر میٹرک تک کے سلیبس میں شامل کرنے اور نوجوان نسل کو بھارت کا مکروہ چہرہ بھی دکھائے اور مظلوم کشمیریوں پر ڈھائے جانے واے مظالم کی رُودار بھی بتائے۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ اگلے تقریباً دس برس میں ایک ایسی پُرجوش نسل تیار ہو جائے گی جو کشمیر کی آزادی کے لیے ہر سطح پر اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے پُرعزم ہو گی اور کشمیریوں کو بھی آزادی کی جدوجہد جاری رکھنے میں مدد ملے گی۔ میاں نواز شریف کی نااہلی کے عدالتی فیصلے کے بعد اب مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی کو ’’توہینِ عدالت‘‘ کے ’’جرم‘‘ میں پانچ سال کے لیے نااہل قرار دے کر ایک ماہ کے لیے اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا ہے اور مسلم لیگ (ن) ہی کے طلال چودھری کو بھی توہینِ عدالت کے الزام میں چھ فروری کو عدالت میں طلب کر لیا ہے۔ جس پر طلال چودھری نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ : ’’توہینِ عدالت پر سزا صرف مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں کو ملے گی باقی سب کو توہینِ عدالت کرنے کی کُھلی چُھٹی ہے۔‘‘ ویسے دیکھا جائے تو مشرف نے عملی طور پر عدالت کی توہین میں کوئی کسر نہیں چھوڑی بلکہ اُس پر غداری کا مقدمہ بھی درج ہے لیکن عدالت نے اس کے بارے گہری خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ اسی طرح عمران خان نے بھی عوامی جلسوں میں کُھل کر ججوں اور عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا لیکن اُسے بھی غیر مشروط معافی دے دی گئی۔ بابر اعوان کو بھی توہینِ عدالت کے جرم میں غیر مشروط معافی سے نواز دیا گیا لیکن نہال ہاشمی کی معافی کی درخواست مسترد کر دی گئی اور کمرہ عدالت سے سیدھا جیل بھیج دیا گیا۔ اگر جج جانبدار ہو جائیں تو انصاف کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟