روایتی اور رجعت پرست مذہبی لوگوں میں سب سے بڑا ذہنی نقص یہ ہے کہ وہ ذہن رکھتے ہوئے بھی ذہن کو استعمال نہیں کرتے۔ وہ ہر جدت کو بدعت گردانتے ہوئے اسے لائق تعزیر و نفرین و تکفیر قرار دیتے ہیں۔ دراصل تنقیدی ‘ تحقیقی اور تخلیقی فکر کے لئے آزادیٔ افکار کا ماحول اشد ضروری ہے۔ ملوکیت نے لوگوں کے ذہنوں پر قفل لگا دئیے ملائیت نے زیر سایہ دامان ملوکیت پناہ ڈھونڈی اور عوام کے اصل مسائل سے توجہ ہٹا کر انہیں روایات و خرافات و توہمات کے دام ہمرنگ زمیں میں پھنسا دیا۔ سیاسی آزادی‘ جمہوریت ‘ مساوات‘ سماجی انصاف اور انسانی حقوق کے حصول کی جگہ روحانی مکاشفوں ‘ تصوراتی تصوف اور فقہی مسائل میں الجھا کر رکھ دیا۔ آج ایک تعلیم یافتہ روشن فکر مسلمان حیرت زدہ ہے کہ قرآن کا پیغام اور نظام کیا ہے اور اسے تاریخی ‘ مسلکی اور فقہی بکھیڑوں نے کیسے بازیچۂ اطفال بنا دیا ہے۔ ہر مولوی نے اپنے خود ساختہ فتوؤں اور مسائل کی ایک کتاب زیر بغل دبائی ہوئی ہے اور مضحکہ خیز مسائل پر جوش خطابت دکھا رہا ہے۔ چند سال قبل نیویارک میں ایک اسلامی سینٹر میں مجھے ’’اسلام کے نظام عدل‘‘ کے موضوع پر دعوت خطاب دی گئی ۔ کئی مسلمان ممالک کے لوگ سامعین میں شامل تھے۔ کئی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسی تھیں جو امریکہ میں ہی پیدا ہوئے لیکن رجعت پرست مولویوں کے خیالات سے سخت بے زار تھے۔ مجھے اس وقت حیرت ہوئی جب میرے خطاب کے بعد اسلام کے نظام عدل و انصاف کی بابت سوال کرنے کی بجائے ایک نوجوان لڑکی نے پوچھا ’’سعودی عرب میں عورتوں کا گاڑی چلانا ممنوع ہے‘ وہ اسے غیر اسلامی کہتے ہیں‘ کیا امریکہ میں ہم مسلمان عورتیں کار چلانا چھوڑ دیں ؟ اگر ہم ایسا کریں تو ہم دفتروں میں کیسے جائیں گی‘‘ ایک شخص نے کہا میں نے ’’وگ‘‘ پہنی ہے اور مولوی صاحب کہتے ہیں ’’وگ‘‘ پر وضو میں مسح حرام ہے اب میں کیا کروں‘‘ ایک خاتون نے کہا میں نیل پالش لگاتی ہوں کیا میرا وضو درست ہے؟اس قسم کے کئی فقہی مسائل سن کر میں نے عرض کیا اسلام آسانیوں کا دین ہے۔ اس میں تنگی و سختی نہیں خیر و شر کا خیال رکھیں۔ فقۂ جدید کی ضرورت ہے یہ مسائل سماجی مسائل ہیں نہ کہ دینی مسائل۔ اس قسم کے ایک خود ساختہ فقہی مسئلہ کا ذکر ممتاز علامتی و طلسماتی افسانہ نگار ڈاکٹر رشید امجد کی کتاب ’’دکھ ایک چڑیا ہے‘‘ کے افسانے بعنوان ’’ہنوز خواب میں‘‘ ایک صاحب نے سوال کیا ’’میں مغرب میں رہتا ہوں۔ ہم جب سٹور سے سامان لینے جاتے ہیں تو سیلز مین سے بقیہ رقم لیتے ہیں۔ یہ سیلز مین غیر مذہب کا ہے اور شراب پیتا ہے انہی ہاتھوں سے شراب اٹھاتا ہے کیا اس کے ہاتھوں سے بقیہ رقم لینا جائز ہے‘‘ جب ایسے فقہی مسائل کا طومار ہمیں گھیرے رکھے گا تو اصل مسائل زندگی پر اجتہاد کہاں ہو گا۔ کینیڈا میں ایک خاتون نے کہا سر پر تو حجاب لیتی ہوں۔ منہ پر نقاب اس معاشرے میں کیسے لوں ؟مولوی صاحب سیخ پا ہو گئے اور کہا کینیڈا چھوڑ کر پاکستان واپس آ جائو۔ لڑکی بولی وہاں بھی تو 80 فیصد لڑکیاں نقاب نہیں لیتیں۔ مولانا اجتہاد کیجئے۔ جس طرح پودا آغاز میں نرم ونازک ہوتا ہے اور درخت بننے پر مضبوط و سخت ہوتا ہے اسی طرح انسانی معاشرتی اور انسانی فکر بھی ارتقاء پذیر ہے۔ پہلی جماعت کے طالب علم اور پی ایچ ڈی کے طالب علم کی ذہنی و فکری سطح میں فرق کا ہونا فطری ہے۔ دیہاتی اور جاہلانہ ماحول کے لوگوں اور تعلیم یافتہ و ترقی یافتہ لوگوں کی ذہنی استعداد اور عملی زندگی میں فرق نمایاں ہے۔ جمہوریت کے لئے تعلیم یافتہ اور خوشحال معاشرے کا قیام ضروری ہے۔ قبائلی، نسلی، مسلکی اور جاہل و غریب معاشرہ سیاسی طور پر مستحکم نہیں ہوتا۔ ان فطری حقائق کی روشنی میں یہی ارتقاء مذاہب کا بھی نصیب ہے۔ جن مذاہب میں حقیقت سے چشم پوشی کی جاتی ہے وہ انسانی معاشرہ کیلئے عذاب ہیں۔ وہ دراصل مذاہب کے پیکر میں اوہام پرستی کے بتانِ تنگ نظری ہیں۔ الہامی مذاہب یہودیت، عیسائیت اور اسلام نے چند بنیادی احکاماتِ خیروشر بیان کیے ہیں، ان پر عمل کرنا ہر مذہب کے پیروکار پر فرض ہے۔ بنیادی اخلاقیات ہر مذہب کا حصہ اور ہر انسانی مہذب و متمدن معاشرے کی ضرورت ہے۔ اسلام کا اس ضمن میں ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے اور وہ عقل کی کسوٹی پر ہر حکمِ ایزدی کو پرکھنا ہے۔ زمانے کے تقاضوں کے مطابق اسلام کے بنیادی اصولوں اور احکامات کی روشنی میں ’’اجتہاد‘‘کرنا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے کہ جب ہم کسی آیت کو متروک کرتے ہیں تو اس جیسی دوسری یا اس سے بہتر آیت نازل کرتے ہیں۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ احکامِ الہیٰ میں جمود نہیں ہے۔ فلاح کیلئے احکامات میں تبدیلی کو ہی شریعت کی روح قرار دیا جا سکتا ہے۔شریعتِ موسوی اور شریعتِ عیسوی کے بعد شریعتِ محمدیؐ کا جواز صرف یہ ہے کہ بنیادی احکامات تو سب شریعتوں میں یکساں ہیں مگر ان کی تعبیر و تفسیر اور ان کا اطلاق معاشرے کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر چوری کی سزا ہر مذہب میں درج ہے لیکن چوری کی تشریح و تعریف کیا ہے۔ عادل چور کی سزا اور ہے، جبری چور کی سزا اور ہے۔ جس معاشرے میں عدل و انصاف نہ ہو اور لوگ غربت و افلاس سے بے حال ہوں وہاں قوانین کے اطلاق کی کیا صورت ہو گی۔ یہ وہ سماجی مسائل ہیں جن کا حل فقئہ جدید میں ڈھونڈنا ہو گا۔ ’’خود اختیاری اخلاقیات‘‘ اور ’’جبری اخلاقیات‘‘ کی جداگانہ حیثیت ہے۔ سنن ابن دائود میں حضرت ابن بریدہ ؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا ’’ میں نے تمھیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا اب تم قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ قبروں کی زیارت سے آخرت کی یاد آتی ہے‘‘ صحیح مسلم میں منقول ہے حضرت سلمہ بن الاکوع بیان کرتے ہیں کہ حضرت محمد ؐ نے فرمایا کہ جو شخص قربانی کرتا ہے وہ تین دن سے زیادہ گوشت گھر میں نہ رکھے لیکن دوسرے سال تین دن سے زیادہ گوشت کو رکھنے کی اجازت دیتے ہوئے جواز یہ دیا کہ سالِ گذشتہ ایسا تھا کہ لوگ تنگدستی میں تھے اور وجہِ حکم یہ تھی کہ گوشت تقسیم کر دیا جائے اور لوگوں تک پہنچے۔ گویا وقت کے ساتھ ساتھ احکامات کو اجتہاد کی روشنی میں پرکھنا سنتِ نبویؐ ہے۔ رجعت پسندی اور شدت پسندی خلاف اجتہاد ہے۔ قرآن مجید کتابِ حکمت و ہدایت ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ کی بابت ہدایات دی گئی ہیں۔ بنیادیں فراہم کر دی گئی ہیں اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق اجتہاد کے دروازے کھلے ہیں۔ اسلام کی مثال تالاب کی سی نہیں جس میں پانی ٹھہرے رہتا ہے اور کیڑے مکوڑے پیدا ہوتے ہیں اور پانی بدبودار ہو جاتا ہے۔ اسلام کی مثال بہتے دریا کی مانند ہے جس کا پانی صاف و شفاف ہے۔ کائنات متحرک ہے۔ جمود میں موت اور تحرک میں زندگی ہے۔ اجتہاد تحریک و تحرکِ فکری کا نام ہے۔ قرآن مجید کی آیات تاقیامت محفوظ و مستحکم ہیں۔ سمندر کو قطرے میں بند کر دیا گیا ہے۔ آمریت و ملوکیت کی نفی اور مشاورت کیلئے قرآن نے اعلان کیا ’’ وشاور ھم فی الامر‘‘۔ معاملات میں ان سے مشاورت کریں۔ یہ حکمِ رسولؐ مقبول کو دیا جا رہا ہے کہ وہ صحابہ کرام سے دینوی معاملات میں مشاورت کیا کریں۔ آج وہی نظام مشاورت نظام خلافت ہے جسے عہد حاضر کی سیاسی اصطلاح میں ’’ اسلامی جمہوریت ‘‘ کہتے ہیں۔ حاکمیت خدا کی اور حکومت عوام کی۔ عوام کی رائے سے حکمرانوں کا انتخاب ہی اسلام کا سیاسی نظام ہے۔ معاشی نظام زندگی کیا ہے۔ قرآن مجید نے فرمایا ’’یکلونک ماذا یفقون قل العفو‘‘ ’’ اے رسولؐ یہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ہم اللہ کی راہ میں کیا خرچ کریں، فرمائیے ضرورت سے زیادہ خرچ کریں‘‘ گویا ہر شخص کی بنیادی ضرورت روٹی کپڑا ،مکان تعلیم اور دوا کا انتظام معاشرہ اسلام اور حکومت اسلامی کا فریضہ ہے۔ اسے مساوات محمدیؐ کہتے ہیں۔ سرمایہ داری نظام ضدِ اسلام ہے۔ آج کل امریکہ اور یورپ میں خطرناک حد تک جنسی بے راہ روی ہے۔ مرد مرد کے ساتھ اور عورت عورت کے ساتھ جنسی اختلاط کرنے لگے ہیں۔ اسے ’’ جنسِ یکساں‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس غیر اخلاقی اور غیر فطری عمل کی وجہ روحانیت اور اخلاقیات سے دوری ہے۔