پاکستان سمیت دنیائے اسلام کے سنجیدہ اور فہم وادراک کی حامل ممتاز مسلم شخصیات کو فی الفور اِس جانب توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ'یہود اور ہنود' دونوں کل بھی ہمارے دشمن تھے' آج بھی ہیں اوروہ ہمیشہ ہمارے دشمن ہی رہیں گے، مشرق وسطیٰ اور خطہ ِفارس میں صہیونی سازشیں جبکہ پاکستان کی مغربی سرحدوں کے پار افغانستان میں ہنود کی شیطان صفت اور انسانیت دشمن سرگرمیاں بڑھتی ہی چلی جارہی ہیں، گزشتہ برس 2017 کے ماہ نومبر میں پاکستانی سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کے تاریخی دورہ ایران نے بھارتی استبدادی پالیسی سازوں کی نیندیں اْڑا کر رکھ دیں، ایرانی قائد و رہبر آیت اللہ خامنائی نے پاکستانی آرمی چیف سے خطہ میں تیزی سے تبدیل ہونیوالی تزویراتی صورتحال پر انہیں اپنے تحفظات سے آگاہ کیا جبکہ جنرل قمرجاوید باجوہ نے اْنہیں صاف طور پر یہ بتادیا کہ پاکستان اورایران کے مخلص برادرانہ تاریخی تعلقات میں کوئی تیسرا ملک کسی بھی قسم کی رتی برابر بھی غلط فہمی کی دراڑ پیدا کرنے کی جسارت نہیں کرسکتا، ایران کی طرح پاکستان بھی اپنے واضح اور کھلے ہوئے دشمن ملکوں کی حرکات و سکنات پربڑی گہری نظریں جمائے ہوئے ہے، جوں ہی پاکستانی فوج کے سربراہ واپس وطن لوٹے، وہ دن ہے اورآج کا یہ دن، نئی دہلی انتظامیہ خاک نشیں ہوکرالٹ پلٹ رہی ہے، بھارتی میڈیا سرگرم ہوگیا ہے 18 جنوری 2018 کوافغانستان میں موجود خودساختہ جلاوطن ایک بلوچی خود ساختہ لیڈر 'عبدالقدیربلوچ' عرف ماما قدیرکا 'را' کے زیراہتمام نشریات ٹیلی کاسٹ کرنیوالے نیوز چینل سے ایک انٹرویو ٹیلی کاسٹ کروایا گیا جس میں ماما قدیر کی زبانی یہ مضحکہ خیز اور افسانونی کہانی بار بار دہرائی گئی کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن جادیو کو ایرانی بارڈرکراس کرتے ہوئے بلوچستان کے علاقہ آوران سے آئی ایس آئی نے گرفتار نہیں کیا بلکہ اْسے آئی ایس آئی نے ایرانی ساحلی تجارتی شہر چاہ بہار سے غواء کیا تھا؟ یہ بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' کا اول روز سے اختیار کردہ بے سروپا بیانیہ ہے جسے ایک ایسے وقت میں دنیا کو دھوکہ دینے کیلئے 'ماما قدیر' کی زبان میں دہرایا جارہا ہے جب پاکستانی آرمی چیف کی قیادت میں اعلیٰ سطحی وفد نے اپنے پڑوسی برادرملک ِ ایران کا کامیاب دورہ مکمل کیا ہے، ہمارے دشمنوں سے یہ امرواقعہ ہضم نہیں ہورہا، ہضم کیوں نہیں ہو رہا؟ چونکہ پاکستان نے دوٹوک اورنہایت واضح لب ولہجہ کے ساتھ دنیا کی واحد سپرپاور امریکا سے کہہ دیا ہے پاکستان کو امریکی امداد کی اب کوئی ضرورت نہیں رہی، نہ صرف امریکی امداد کی بلکہ اب پاکستانی فوج کو جنگی ہتھیاروں کیلئے پْرزہ جات کی بھی کوئی ضرورت نہیں، پاکستان پر جتنی پابندیاں لگانا چاہتا ہے لگا لے، پاکستان اپنے وسائل میں اپنے مسائل کو حل کرنے کے سفر پر گامزن ہے، یہاں ایک اہم بات اور واضح ہوجانی چاہیئے کہ جنوبی ایشیا میں بھارت کے جو علاقائی اورعالمی عزائم ہیں اوراْن کی راہ میں جوناقابل تسخیررکاوٹیں ہیں وہ رکاوٹیں بھارت کے ہمسایہ ممالک یعنی پاکستان اورچین ہیں، بھارت پاکستان اور چین کو اگر عبور کرسکتا ہے تو پھر دیر کس بات کی؟ عبورکرکے دکھائے نا؟ بیس بائیس کروڑ پاکستانی اپنے پختہ قوت ایمانی کی بدولت بھارت کواْسکے اپنے علاقہ میں مٹی چٹانے کی بھرپور ہمت وجرأت رکھتے ہیں، بھارت کی اِس پریشانی کا کوئی علاج نہیں کہ افغانستان کی اندرونی سیاست میں کبھی مستقبل میں وہ کوئی رول ادا کر پائے گا؟ بدقستمی سے بھارت نے عرصہ ہوا سیکولرازم کا ’کریاکرم‘ توکرہی دیا ببانگ ِدہل 'ہندوتوا'کے زعفرانی رنگ میں اپنے آپ کو رنگ بھی لیا اْس دیش پرایک نہیں بلکہ کئی اقسام کی بدقسمتیوں نے اور سیاسی وسفارتی بدنصیبیوں نے اپنے گہرے اور مہیب اثرات ڈال رکھے ہیں' مثلا یہ کہ بھارت اپنے پڑوسی ممالک کو ’غیر مستحکم‘ سمجھتے ہوئے اِس غلط فہمی کا شکار چلاآرہا ہے وہ جب چاہے گا وہاں 'را' کے ایجنٹوں کے توسط سے مزید انتشار وافتراق پیدا کر کے ’خوفناک انارکی‘ پھیلا سکتا ہے؟ نئی دہلی کو اب کون یہ سمجھائے یہ زمانہ 1971۔1970کا زمانہ نہیں ہے بلکہ اکیسویں صدی کا ایک عشرہ گزرنے جانے کے بعد 2018 کے عہد میں ہم جی رہے ہیں نئی دہلی کواندھے پن سے نہیں بلکہ کھلی ہوئی آنکھوں سے زمینی حقائق کو بلا چوں چرا تسلیم کرنا ہی ہوگا کہ چاہ بہار کی بندرگاہ سے افغانستان کو غذائی امداد کے نام پر15000 ٹن جوگندم بھیجی گئی تھی عرصہ ہوا جس گندم کی مدت استعمال ختم ہوچکی تھی، گلی سڑی ہوئی بھارتی گندم جو کہ انسانی صحت کیلئے مہلک خطرہ بن چکی تھی، مسلم افغانیوں کی صحت کا صریحاً دشمن ملک بھارت کی اِس انسانیت کش چال پر قوم پرست افغانی تجارت پیشہ طبقہ نے زبردست احتجاج کیا اوراپنی افغان حکومت سے اپنے میڈیا کے توسط سے پْرزور مطالبہ کیا کہ افغانستان میں متعین بھارتی سفیر کو طلب کرکے اْس سے سخت سرزنش کی جائے، کجا افغانی اعلیٰ حکام سے ایسی توقع کون کرے جہاں کا انتظامی باوا آدم ہی نرالا ہے، افسوس اورصدہا افسوس! 11/9 کے بعد جب افغانستان میں بطور قابض فوج کے امریکی وہاں کے کرتا دھرتا بنے بیٹھے ہیں اْنہوں جب خود ہی بھارت کو افغانستان میں لا بٹھایا وہ بھارتی انسانیت کش حرکات وسکنات پر کیسے اور کیونکرنوٹس لیں گے؟ اْنہیں تو ہمیشہ سے اگر کوئی شکوہ شکایات رہیں تو وہ پاکستان سے رہیں افغانستان میں پاکستان کے راستے تازہ ترین اور صحت بخش غذائی اجناس چند گھنٹوں کی مسافت کے بعد وہاں بالکل تروتازہ پہنچ جاتی ہیں جو نہ امریکا کے قابل قبول نہ ہی بھارت کیلئے بھارت کا کام صرف اتنا ہی رہ گیا ہے کہ افغانستان بھر میں پاکستان سے درآمد ہونیوالی غذائی اشیاء کیخلاف دل کھول کرجتنا بھی جھوٹااورمن گھڑت پروپیگنڈا کیا جائے وہ کرتا رہے، پاکستان سے حلال گوشت اورحلال ڈیری مصنوعات عام افغانیوں کی برسہا برس سے بہت ہی مرغوب غذاء ہے، صدر اشرف غنی کی کابینہ میں 'را' نے اپنے کئی ایجنٹوں کواہم عہدے دلا رکھے ہیں، گزشتہ دِنوں افغان وزارت داخلہ نے عام لوگوں کو انتباہ کرنے کی غرض سے ایک متنازعہ اعلامیہ جاری کیا تھا کہ پاکستان سے آنے والی ڈیری مصنوعات سے پرہیز کیا جائے مگر کیوں؟ وہ اِس لئے کہ درآمد شدہ پاکستانی ڈیری مصنوعات ناقابل استعمال ہیں جس کا براہ راست الزام افغان وزارت ِداخلہ نے آئی ایس آئی پرعائد کردیا؟ جوکہ عام سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد کو متحیر کرنے کیلئے کافی ہے یہ امر حیران کن بھی ہے پاکستان ایک اسلامی ملک اپنے مسلمان افغان بھائیوں کی صحت وسلامتی کو پاکستان خطرے میں کیسے اور کیوں کر ڈال سکتا ہے؟ اپنی پروپیگنڈا مہمات کے بل پرعلاقائی مسلمانوں کومسلسل اور متواترخوف زدہ اور دہشت زدہ کئے رکھنے میں بھارت نے زمینی سیاسی وسفارتی سچائیوں سے اپنی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں بھارت کا تزویراتی مذموم کلچر بن چکا ہے بھارت کبھی نہیں چاہے گا کہ افغانستان سے امریکی اثرونفوذ مکمل طور پر ختم ہو‘ وہاں بھارت امریکا کے کندھوں پرسوار ہوکرآیا تھا، امریکی فورسنز افغانستان سے واپس چلی گئیں تو کوئی یہ عقدہ کشائی تو کرئے ایسے میں بھارت ایک پل بھی کیا افغانستان میں ٹھہر سکے گا؟ بھارت پر ہی کیا منحصر؟ امریکی ساختہ اشرف غنی جو نہ سیکولر ہیں اور نہ توحید کے نام لیوا ان کے قریبی اعزاواقربا جوکہ عیسائی ہیں اْنکے حوالے سے مسلم افغان علماء متفقہ فتویٰ جاری کر چکے ہیں کہ اْنہیں ایک مسلم ملک کی قیادت کرنے حق بالکل نہیں دیا جا سکتا یقیناً افغان علماء کے اِس متفقہ فیصلے کے بعد افغان حکمران کلب میں ہلچل تو ضرور مچ گئی ہو گئی؟