اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے پاکستان ٹیلی ویژن کے منیجنگ ڈائریکٹر کی تقرری کے حوالے سے کیس میں سابق وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ہوئے12فروری تک جواب طلب کرلیا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بتایا جائے کہ سرکاری ٹی وی کے منیجنگ ڈائریکٹر/ ایم ڈی کی اسامی کیوں خالی ہے؟ سرکاری وکیل نے بتایاکہ محمد مالک کے بعد 26 فروری 2016 سے یہ اسامی خالی ہے، 23 ستمبر2017کو اشتہار دیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا ایم ڈی لگانے کی سمری ایک سال سات ماہ تک کیوں نہیں بھیجی گئی، اس کا ذمہ دار کون ہے؟۔ سیکرٹری اطلاعات احمد نواز سکھیرا نے بتایا کہ اس عرصے کے دوران سیکرٹری اطلاعات کے پاس سرکاری ٹی وی کے ایم ڈی کا اضافی چارج بھی تھا، اس کے بعد عطائ الحق قاسمی کو سرکاری ٹی وی کا چیئرمین لگایا گیا جنہوں نے ایم ڈی کا اضافی چارج لیا جو میرے خیال میں غیرمناسب تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب ایک چیز قانون کے مطابق نہ تھی تو اسے غیر قانونی کیوں نہیں کہتے؟ ہم قاسمی کو نوٹس جاری کرکے تنخواہ ریکور کرلیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قواعد کے مطابق تو چیئرمین بورڈ اعزازی عہدہ ہے یہ تو کوئی بھی بن سکتا ہے۔ تنخواہ کیا ہے؟ سرکاری وکیل نے بتایاکہ چیئرمین بورڈ اور دیگر ارکان کو ہر اجلاس میں شرکت کے پانچ ہزار ملتے ہیں۔ عطاء الحق قاسمی کو 23 دسمبر 2016ء کو لگایا گیا اور 18دسمبر2017ء کو عہدہ چھوڑا، پندرہ لاکھ روپے ٹیکس سمیت تنخواہ تھی، کل 27 کروڑ روپے خرچ کیے۔ سیکرٹری اطلاعات نے عدالت کو بتایا گیا کہ ستائیس کروڑ صر ف تنخواہ کی مد میں نہیں لیے بلکہ ان کے دور میں یہ اخراجات ان کے ذریعے کیے گئے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اخراجات ہوں تب بھی، اگر اس کا تقرر ہی قانونی نہیں ہے، دوسال میں ستائیس کروڑ اس کو دے دیے، یہ غریب ملک ہے، غریب لوگوں کے ٹیکس کا پیسہ ہے، ایک کروڑ روپے ہر ماہ اس شخص پر خرچ کیا گیا، کیوں نہ سابق وزیراعظم (نوازشریف) کو نوٹس بھیجیں کہ کیوں تقرر کیا، اتنا پیسہ کیوں دیا؟ کیوں نہ یہ رقم سابق وزیراعظم سے واپس لی جائے؟۔ سیکرٹری اطلاعات نے کہا کہ وہ اس پر تبصرہ نہیں کر سکتے، مگر یہ سب درست نہیں ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سکھیرا صاحب، یہ آپ کا قومی فریضہ ہے، اپنے آپ سے باہر نکلیں۔ ہم اٹارنی جنرل کو بلاتے ہیں، بتایا جائے کس کس کو نوٹس کریں، قاسمی کو ابھی نوٹس کرتے ہیں، کیوں نہ سابق وزیراعظم کو بھی نوٹس کریں کہ تقرر کی سمری پر دستخط انہوں نے کیے ۔سرکاری وکیل رانا وقار نے کہا کہ صرف اٹارنی جنرل اور قاسمی صاحب کو نوٹس کرکے سن لیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت وزیر اطلاعات کون تھا؟ قاسمی صاحب کی اہلیت کیا ہے؟۔ احمد نواز سکھیرا نے بتایاکہ وزیر پرویز رشید تھے، قاسمی صاحب لکھاری، کالم نگار اور ڈرامہ نویس ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو خود اس نے ڈرامہ لگا دیا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ان دستاویزات میں کچھ اشتہارات کا بھی ذکر ہے، یہ پیسے کس مد میں ہیں؟ سیکرٹری اطلاعات نے بتایاکہ قاسمی صاحب پروگرام بھی کرتے تھے جس کا اشتہار مختلف اخبارات میں پی ٹی وی کے ساتھ معاہدے کے تحت شائع ہوتا رہا اس کی رقم شامل ہے۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری اطلاعات سے کہا کہ آپ معاونت کے لئے عدالت حاضر ہوتے رہیں اگر آپ کو تبدیل بھی کردیا گیا تو بھی عدالت آپ کو معاونت کے لئے طلب کرلے گی چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عطا الحق قاسمی کو دو سال میں27کروڑ روپے دیئے گئے، پھر کہتے ہیں عدلیہ متحرک نہ ہو، کیا اس طرح کا پیکج عطا الحق قاسمی کو دیا جا سکتا تھا، مجھے تو یہ سارا قصہ ہی ڈرامہ لگ رہا ہے، کیوں نہ سابق وزیراعظم کو سمری منظور کرنے پر نوٹس جاری کر دیں۔ سیکرٹری اطلاعات احمد نواز سکھیرا نے دوران سماعت عدالت کے استفسار پر کہا کہ میرے خیال سے یہ تقرری مناسب نہیں تھی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ عطا الحق قاسمی کی تقرری کو غیر قانونی کیوں نہیں کہتے۔ یہ غریبوں کے ٹیکس کا پیسہ تھا، رقم دینے اور لینے والے رقم واپسی کے ذمہ دار ہوں گے، ہم عطا الحق قاسمی سے وصول کریں گے۔