حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ’’جنگ ‘‘میں کبھی شدت پیدا ہو جاتی ہے اور کبھی کمی آ جاتی ہے۔ بہرحال دونوں ایک دوسرے کیخلاف ’’پوائنٹ سکورنگ‘‘ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی ہیئت ترکیبی کچھ اس طرح ہے کہ کوئی آئینی ترمیم اپوزیشن کی مرضی کی بغیر منظور نہیں ہو سکتی۔ آج کل مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کے درمیان گاڑھی چھنتی ہے۔قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف جہاں اپنا بیشتر وقت ملاقاتوں میں گزارتے ہیں وہاں وہ مسلم لیگی رہنمائوں سے بھی مشاورت کرتے رہتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے ’’دانشور‘‘سیاست دان پروفیسر احسن اقبال کے کندھوں پر بھاری ذمہ داریاں ڈال دی گئی ہیں۔ ان کے ذمہ اہم امور بھی سونپے گئے ہیں، جہاں وہ پارٹی کی تنظیمِ نو جیسے مشکل کام کو نتیجہ خیز بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، وہاں ان سے پارٹی کے آئینی و قانونی امور کی انجام دہی بھی کروائی جا رہی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت نے پاکستان تحریک انصاف کو پریشان کن صورتحال سے دوچار کرنے کیلئے قومی اسمبلی میں بہاولپور اور جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کیلئے آئینی ترمیمی بل جمع کرادیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن نے آئینی ترمیم اس حد تک رازداری سے تیار کی کہ حکومت تو دور کی بات ،اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کو بھی کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ آئینی بل مسلم لیگ (ن) کے احسن اقبال، رانا تنویر، رانا ثناء اللہ خان، عبدالرحمن کانجو نے اپنے دستخطوں سے سیکریٹری قومی اسمبلی کے پاس جمع کرا دی ہے ۔ اس کا باقاعدہ اعلان مسلم لیگ ن کے قائم مقام سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے ایک پریس کانفرنس میں کیا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ مسلم لیگ ن ،پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف نے عام انتخابات میں جنوبی پنجاب کا صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا جبکہ مسلم لیگ ن جنوبی پنجاب کے ساتھ بہاولپور کو بھی صوبہ بنانے کی حامی ہے۔ سردست مسلم لیگ ن نے پنجاب کے حصے بخرے کرنے کیلئے دو مزید صوبے بنانے کی جو آئینی ترمیم پیش کی ہے، اس کو حکومت کیلئے منظور کرانا اس لحاظ سے مشکل ہے کہ وہ بہاولپور صوبہ بنانے کے حق میں نہیں۔ جبکہ موجودہ حالات میں جنوبی پنجاب کا نیا صوبہ بنا دیا جائے تو پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کی قائم کردہ حکومت دھڑام سے گر پڑیگی اس لئے حکومت نیا صوبہ بنانے کی ’’عیاشی‘‘ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ عام انتخابات کے انعقاد سے قبل تحریک انصاف میں جنوبی صوبہ محاذ اس شرط پر ضم ہو گیا تھا کہ تحریک انصاف حکومت سنبھالنے کے سو دن کے اندر جنوبی پنجاب کے قیام کیلئے عملی اقدامات کریگی۔ اب تک حکومت پنجاب نے جنوبی پنجاب کے عوام کی ’’اشک شوئی‘‘ کرنے کے ملتان میں جنوبی پنجاب کا الگ ’’سیکرٹریٹ‘‘ بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اس سلسلے میں تاحال کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی، البتہ پاکستان مسلم لیگ ن نے پنجاب میں دو نئے صوبے بنانے کی آئینی ترمیم کا بل جمع کرا کر ایک نئی بحث کو چھیڑ دیا ہے۔ پنجاب کے حصے بخرے کرنے کی کوئی کوشش اس وقت تک کامیاب نہیںہو سکتی جب تک فیڈریشن کی دیگر اکائیوں میں بھی معروضی حالات کیمطابق عمل نہیں کیا جاتا۔
پنجاب کے تین صوبے بنانے سے فیڈریشن میں توازن بگڑ جانے کا امکان ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن نئے صوبے بنانے کے بارے میں ایک نئے کمیشن کے قیام کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں جنوبی پنجاب کا صوبہ بنانے کے بارے میں متفقہ طور پر ایک قرار داد منظور ہو چکی ہے، جو تاحال پنجاب اسمبلی کے سیکرٹریٹ میں پڑی ہے۔ قومی اسمبلی میں پیش کئے گئے ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل ایک میں ترمیم سے بہاولپور، جنوبی پنجاب کے صوبوں کی تشکیل کے الفاظ شامل کئے جائیں ۔ صوبوں کی تشکیل کیلئے آئینی ترمیم کا عنوان ’آئینی (ترمیمی) ایکٹ مجریہ 2019ئ‘ ہے۔ بہاولپور صوبہ بہالپور کے موجودہ انتظامی ڈویژن پر مشتمل ہوگا۔ جنوبی پنجاب صوبہ موجودہ ڈیرہ غازی خان اور ملتان ڈویژن پر مشتمل ہوگا۔ آئینی ترمیم کے بعد ڈیرہ غازی خان اور ملتان ڈویژن صوبہ پنجاب کی حد سے نکل جائینگے۔ آئین کے آرٹیکل 51 میں ترمیم سے صوبائی نشستوں میں ردوبدل کیاجائے۔ آئینی ترمیم کے بعد بہاولپور صوبہ کی15 جنرل ، خواتین کی تین نشستیں ملا کر قومی اسمبلی میں کل اٹھارہ نشستیں ہوجائیں گی۔ بلوچستان کی 20، جنوبی پنجاب صوبہ کی 38، خیبرپختونخوا کی 55، صوبہ پنجاب کی 117، صوبہ سندھ کی 75 اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی قومی اسمبلی میں تین نشستیں ہوں گی۔ ترمیم کے نتیجے میں قومی اسمبلی کی کل نشستوں کی تعداد 326 ہوگی جس میں 266جنرل نشستیں اور 60 خواتین کی نشستیں ہوں گی۔ جنرل الیکشن 2018ء میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات سے منتخب شدہ ارکان قومی اسمبلی اور پنجاب سے خواتین کی مخصوص نشست پر کامیاب ہونیوالی خواتین موجودہ اسمبلی کی مدت مکمل ہونے تک اپنی ذمہ داریاں انجام دیتی رہیں گی۔ موجودہ اسمبلی کی مدت کی تکمیل کے ساتھ یہ شق ختم ہوجائیگا۔ آئین کے آرٹیکل 59 میں ترمیم کرکے مناسب ترامیم کی جائیں۔ آئینی ترمیم کے ذریعے نئے صوبوں کی تشکیل سے قطع نظر پنجاب اسمبلی کے منتخب ارکان اپنی مقررہ مدت مکمل کرینگے جس کے بعد یہ ختم ہوجائیگا۔ ترمیم کے نتیجے میں بہاولپور صوبہ کی صوبائی اسمبلی میں نشستوں کی کل تعداد 39 ہوگی جس میں سے 31جنرل، 7خواتین اور ایک غیرمسلم کی نشست ہوگی بلوچستان اسمبلی کی نشستوں کی کل تعداد65، خیبرپختونخوا کی 145، پنجاب کی 252، سندھ کی 168 ہوں گی۔ احسن اقبال نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت نے جنوبی پنجاب کے نعرے پر الیکشن لڑا تھا، اب دیکھتے ہیں حکومت کیا کرتی ہے۔ اگر حکومت جنوبی پنجاب اور بہاولپور صوبہ بنانے کیلئے سنجیدہ ہے تو ہم غیر مشروط تعاون کیلئے تیار ہیں۔
مسلم لیگ ن کی جانب سے جمع کرائی گئے ترمیمی بل کو کسی پرائیویٹ ممبرز ڈے پر ایوان میں پیش کیا جائیگا لیکن جب تک تمام ’’سٹیک ہولڈرز‘‘ آن بورڈ نہیں ہونگے اس وقت تک آئینی ترمیم قومی اسمبلی میں مجلس قائمہ برائے قانون و انصاف کے پاس زیر التوا رہے گی۔ پاکستان میں نئے صوبے بنانے کی کوئی تحریک اس وقت تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس بارے میں قومی اتفاق رائے پیدا نہیں ہوتا۔ پنجاب کے حصے بخرے کرنے کی خواہش رکھنے والے سیاستدان اپنے صوبوں کے اندر تقسیم کے حق میں نہیں، اگر پنجاب کے تین صوبے بن جائینگے تو سینیٹ میں طاقت کا توازن تبدیل ہو جائیگا اور پنجاب حاوی ہو جائیگا۔ سندھ کی قیادت کراچی اور حیدرآباد پر مشتمل صوبہ بنانے کی سختی سے مخالفت کر رہی ہے۔ اسی طرح بلوچستان بھی کثیر القومی صوبہ ہے۔ وہاں بھی پشتون اور بلوچ صوبے بنانے کی آواز سنائی دے رہی ہے جبکہ خیبر پختوانخواہ میں صوبہ ہزارہ بنانے کی تحریک بھی چل رہی ہے۔ وفاقی حکومت کو فوری طور پر نئے صوبے بنانے کا جائزہ لینے کیلئے فوری طور پر کمیشن قائم کر دینا چاہیے۔ پاکستان کی اکائیوں کو نئی شکل دینے کی کوئی شعوری کوشش کرنے کیلئے پارلیمنٹ اور اکائیوں کو اعتمادمیں لینے کی ضرورت ہے۔ بہاولپور اور جنوبی پنجاب کو صوبوں کا درجہ دینے کے بارے میں پنجاب اسمبلی کی متفقہ طور پر منظور قرارداد ریکارڈ پر موجود ہے۔ یہ قرارداد آئینی ترمیمی بل کی منظوری کیلئے بنیاد فراہم کر سکتی ہے۔ یہ قرارداد دوتہائی اکثریت سے پاکستان پیپلزپارٹی کے دور میں 2012ء میں منظور کی گئی تھی تاہم دونوں بڑی جماعتوں کے ادوار میں اس حوالے سے کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ۔ قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف سے بہاولپور اور جنوبی پنجاب کو صوبوں کا درجہ دینے کا آئینی ترمیمی بل جمع کروانے کے نتیجے میں اس معاملے پر پنجاب اسمبلی کی دوتہائی اکثریت سے منظور قرارداد بھی زیربحث آ جائیگی ۔ پنجاب کے متعلقہ علاقوں کے عوام کے دباؤ پر پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں یہ قرارداد منظور کی گئی تھی تاہم وفاق میں اس پر غیرمعمولی پیش رفت نہ ہو سکی اور بہاولپور اور جنوبی پنجاب کے عوام نئے صوبوں سے محروم رہے۔ مسلم لیگ (ن) کا دور حکومت بھی خاموشی سے گزر گیا۔ پنجاب اسمبلی کی قرارداد قومی اسمبلی کے ریکارڈ پر موجود رہی۔ پاکستان تحریک انصاف نے انتخابی منشور میں اس معاملے کو شامل کر لیا تاہم حکمران جماعت کے منشور میں اس علاقے کو ایک صوبے کا درجہ دینے کا وعدہ کیا گیا۔ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں سے حمایت کیلئے رابطے کئے جا رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی پہلے ہی سے اس بل کی حامی ہے بلکہ اس کے دور میں آئینی ترمیمی بل کا مسودہ تیار کیا گیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما احسن اقبال نے کہا کہ اس معاملے پر جب تک پنجاب اسمبلی کی کوئی اور رائے نہیں آتی پہلے سے منظور قرارداد آئینی ترمیم کیلئے کارآمد ہے۔جنوبی پنجاب محاذ کے شریک چیئرمین سردار نصر اﷲ دریشک نے مسلم لیگ(ن) کی دو صوبوں بارے آئینی ترمیم بل کی مخالفت کی ہے جنوبی پنجاب محاذ اور تحریک انصاف کے درمیان تینوں ڈویژنوں کو ایک صوبہ بنانے کیلئے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کئے گئے ہیں ۔اب دیکھنا یہ ہے آنے والے دنوں میں جنوبی پنجاب اور بہاولپور صوبہ بنانے کی بیل کس منڈھے چڑھتی ہے۔