افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان امن مذاکرات

قطر کے دارالخلافہ دوحہ میں افغان طالبان اور امریکی نمائندوں کے امن مذاکرات 6 روز جاری رہ کر ہفتہ 26 جنوری 2019ء کو ختم ہوئے۔ یہ مذاکرات براہ راست تھے، ان میں افغان حکومت یا کسی تیسرے ملک کے نمائندے نشامل نہ تھے۔ افغانستان میں جنگ کی تاریخ میں پہلی بار امریکی حکومت مکمل جنگ بندی اور 18 ماہ کے اندر امریکیوں سمیت تمام غیر ملکی افواج و عناصر کی مکمل انخلاء پر راضی ہوئی۔ امریکہ کو افغانستان میں عوام کی طرف سے جو شدید مزاحمت ہوئی وہ ویت نام کی طرح کی تھی۔ افغانستان میں جدید ہتھیاروں اور ساز و سامان اور ٹیکنالوجی پر مشتمل جنگ کو امریکہ نے گذشتہ 17 برسوں سے جاری رکھا ہوا ہے مگر اُسے ویتنام کی طرح شکست ہوئی۔
دوسری جنگ عظیم (1039-1945) کے خاتمے تک فرانس نے ہند چینی Indo China کو اپنی نو آبادی بنائے رکھا تھا۔ یہ علاقہ ویتنام، لائوس اور کمبوڈیا وغیرہ پر مشتمل ہے۔ یہاں پر کامریڈ ہوچی منہ کی قیادت میں تحریک آزادی گوریلا جنگ میں تبدیل ہو چکی تھی۔ فرانس سے انڈو چائنہ سنبھالا نہیں جا رہا تھا چنانچہ انہوںنے امریکہ سے فوجی دستے بھیجنے کی درخواست کی تاکہ گوریلا جنگ کا مقابلہ کیا جا سکے۔ ہندو چینی میں کامریڈ ہوچی منہ اشتراکیت کے جھنڈے تلے۔ ہند چینی میں اشتراکی نظام لانے اور آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا۔ امریکی تھنک ٹینک نے حکومت کو باور کرایا ’’ایشیا میں چین کی توسیع پسندی کی بوتل کا ڈھکن، ویتنام ہے‘‘۔ اس لئے ہند چینی کو اپنی تسلط میں لا کر وہاں ’’Capitalist‘‘ نظام رائج کرکے اشتراکیت کو پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے۔ 1950 میں ہیری ٹرومین نے، پہلے فوجی دستے ویتنام میں بھیجنے کی منظوری دی اور 1952ء تک ہند چینی جنگ کے دو تہائی اخراجات امریکی عوام کو برداشت کرنے پڑے۔
12 نومبر 1953ء کو فرانس نے لائوس کی سرحد کے ساتھ شمال مغربی ویتنام میں ڈائین بائین پھو نامی قصبے میں فوجیں جمع کرنا شروع کیں۔ فرانس کے منصوبہ کاروں نے بلند پہاڑوں کے درمیان دل کی شکل کی وسیع وادی کی اس بستی میں فوجیں پہنچا کر سوچ لیا کہ دفاعی لحاظ سے مضبوط ترین قلعہ ہے۔ فرانس کو اپنی توپوں، جنگی ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کی فائر پاور پر ناز تھا کہ دشمن کو قریب آنے نہیں دینگے 31 دسمبر 1953ء تک فرانس کے عساکر تقریباً 17000 کی نفری وادی میں پہنچ چکی تھی اور چھائونی بنا کر سکونت اختیار کر چکی تھی۔ ادھر آزادی کی لگن سے سرشار کامریڈ ہوچی منہ کی گوریلا اور ویٹ منہ کی مشترکہ فورسز نے اپنی جنگی منضوبہ بندی پر عملدرآمد شروع کیا۔ توپوں کو حصوں میں کھول کر ریڑھیوں پر لاد کر اور ریڑھیوں کو رسیوں سے کھینچ کر پہاڑوں کی چوٹیوں پر پہنچا گیا اور وہاں پر دوبارہ جوڑ کر دشمن پر توپوں سے بمباری کرنے کے لئے تیار ہوئے۔ 13 مارچ 1954ء کو ہوچی منہ کے زیرکمان گوریلا اور ویت منہ کی مشترکہ فورس نے فرانس کی چھائونی پرحملہ شروع کیا یہ جنگ 56 دن تک جاری رہی۔ 7 مئی 1954ء کو فرانس نے سیز فائر کا اعلان کیا۔ اس کے بعد 3290 فرانسیسی فوجی لڑتے، بھڑتے ڈائین بائین پھو، کی وادی سے انخلا کر گئے۔ تقریباً 2310 مارے گئے اور 1140 فرانسیسی فوجی قیدی بن گئے۔ ڈائین بائین پھوکی جنگ اور شکست نے فرانس کی ہند چینی پر قبضہ کے کفن میں آخری کیل ٹھونک دیا۔
جنگ کے دوران 26 اپریل 1954ء سے 20 جولائی 1954ء سے 1956ء تک جینوا میں امن مذاکرات ہوئے۔ جس کے نتیجے میں معاہدہ ہوا اور 55 سے 56 فرانس انڈو چائنا کو خیرباد کہہ کر چلا گیا۔ مگر امریکی افواج میں اضافہ ہوتا چلا گیا امریکی صدر ہیری ٹرومین سے لیکر جان ایف کینیڈی اورصدر جانسن کے دور تک تقریباً 5,4,3,000 (پانچ لاکھ ترتالیس ہزار) امریکی افواج ویتنام پہنچ چکی تھی اور امریکہ کے ہر شہری کے لئے ویتنام میں جا کر جنگ لڑنا لازمی قرار دیا گیا تھا۔ اکتوبر 1965ء میں سائیگون میں امریکی سفیرہنری کیبٹ لاج ''Henry Cabotlogde'' نے اپنے پاس موجودہنیری کسنگر سے دریافت کیا کہ اس ملک کو زیر کرنے میں مزید کتنی مدت درکار ہوگی تو وہ سوچتے رہے اور کہا کہ ’’ہم نے اپنے آپ کو ایک ایسی جنگ میں ملوث کیا جس کا ہمیں معلوم نہیں تھا کہ اسے کیسے جیتا جائے یا کیسے ختم کیا جائے‘‘۔
30 اپریل 1975ء کو ویتنام کے گوریلوں ’’ویت کانگ‘‘ نے جنوبی کوریا کے دارالخلافہ سائیگون پر اچانک شدید حملہ کیا اور امریکہ کو بھاگنے کی فرصت بھی نہیں ملی۔ افراتفری میں بھاگے اور سمندری جہازوں کے عرشے پر لدے ٹرک اور ہیلی کاپٹروں کو دھکا دیکر سمندر میں گرا کر فوجیوں کے لئے جگہ بنائی اور یوں بھاگ گئے۔ اسکے ساتھ ہی ویتنام کے گوریلوں کے راستوں اور شہریوں پر کارپٹ بمباری کرتے رہے کہ وہاں انسان، چرند پرند مر گئے۔ فقط درخت اور عمارتیں محفوظ رہیں۔
افغانستان میں ابھی افغان طالبان کے علاوہ تحریک طالبان پاکستان ’’القاعدہ، داعش اور دیگر چھوٹی دہشت گرد تنظیمیں مصروف عمل ہیں۔ افغانستان کی ساٹھ فیصد سے زیادہ علاقہ پر افغان طالبان کی رٹ چل رہی ہے۔ یہ طالبان آئے روز افغان حکومت کے علاقہ جات پر قبضہ کئے جا رہے ہیں اور افغان حکومت کی رٹ کا علاقہ سکڑتا جاتا ہے۔ غیر ملکی فوجوں اور امریکی افواج کی چھائونیوں پر تواتر کے ساتھ حملے ہوتے رہتے ہیں۔ صورتحال کچھ اس طرح کی بنتی جا رہی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ افغانستان میں بھی طالبان پوری قوت کے ساتھ اچانک امریکی اور اتحادی فوجیوں پر حملہ آور ہوں اور ’’سائیگون‘‘ کا قضیہ دہرایا جائے۔ ایسی صورتحال سے بچنے کیلئے گذشتہ برس امریکہ نے افغانستان میں کارپٹ بمباری کرنے کیلئے سٹیلتھ بمبار طیارے اور مطلوبہ گولہ بارود افغانستان میں جمع کرلیاہے۔ لیکن اگر طالبان اچانک ر پر آتے ہیں تو ایسی صورت میں بمبار طیارے اور کارپٹ بمباری کا تباہ کن ہتھیار بھی استعمال نہیں ہوپائے گا کہ اس میں امریکی اور اتحادی افواج کو بھی نقصان پہنچے گا۔ مستقبل میں کسی ایسی صورتحال سے بچنے کیلئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے وزیراعظم سے تحریری مدد مانگی ہے کہ پاکستان اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے افغان طالبان کو جنگ بندی کیلئے راضی کریں اور امن معاہدہ ہو جائے تو غیر ملکی افواج و عناصر حفاظت سے پاکستان کے راستے انخلا کرسکیں۔ اس چھ روزہ مذاکرات میں افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدہ کا روڈ میپ تیار ہو گیا ہے۔ آئندہ مذاکرات میں افغان حکومت اور ممکنہ طور پر پاکستان کو بھی شامل کیا جانا ہے۔ ایسی صورتحال میں پاکستان کو چاہئے کہ افغان حکومت، طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدہ میں فریق بننے سے گریز کرے۔ معاہدے کیلئے سازگار ماحول بنانا پاکستان کیلئے بہتر ہوگا مگر اس کا حصہ بننا یا کسی قسم کا ضامن بننا یا معاہدہ طرح کے وعدے وعید کرنا پاکستان کیلئے پیچیدگیاں پیدا کر سکتی ہیں۔
ماضی میں پاکستان کیلئے بہت الجھنیں پیدا ہوئیں اور الزامات عائد کئے جاتے رہے جبکہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ملوث ہونے کی صورت میں اندرونی خلفشار کا قلع قمع کرنے میں قیمتی جانوں کی قربانیاں دینی پڑیں۔ لہٰذا پاکستان موجود ہ افغان حکومت طالبان اور امریکہ کے امن معاہدہ سے باہر ہے تو اس میں عافیت ہے۔ افغانستان سے امریکی اور غیر ملکی افواج اور عناصر، انڈیا اور اسرائیل کی فوجیں اور عناصر کے مکمل انخلائ، پاک افغان سرحد پر فولادی باڑ اور بڑی پوسٹوں کی تعمیر کی تکمیل کے بعد پاکستان کے اندر امن اور استحکام یقینی ہوگا اور پاکستان کی معیشت مستحکم ہوگی۔ انڈیا کی امیدوں پر پانی پھر جائیگا اور امریکہ کے ذریعے دبائو ڈال کر پاکستان سے راہداری اور دیگر مفادات حاصل نہیں کر سکے گا۔ کشمیر میں گوریلا جنگ کشمیریوں کی آزادی کی منزل کو قریب کر دے گی۔ انشاء اللہ

ای پیپر دی نیشن