امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والی بات چیت میں پیش رفت اس قدر حیران کن ہے کہ لوگوں نے انگلیاں دانتوں میں دبا لی ہیں۔ بڑے بڑے جغادری امریکہ کو تنبیہ کر رہے ہیں کہ وہ سخت غلطی پر ہے اور اسے اسطرح سے افغانستان سے نہیں نکلنا چاہیے۔وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے امریکہ ان تمام فوائد سے دستبردار ہو جائیگا جو اس نے اٹھارہ سال کی جنگ سے حاصل کیے تھے- افغانستان دوبارہ اپنی پچھلی حالت پر چلا جائیگا اور اس بات کے امکانات ہیں کہ اس کامیابی سے حوصلہ مند ہوکر اس ملک میں دوبارہ ایسے عناصر کی پشت پناہی کیجائے جو ایک دفعہ پھر نائن الیون کا پلان بنائینگے۔ یوں تو اس موضوع پر بہت سے مضامین لکھے گئے ہیں لیکن اس سلسلے میں امریکہ کے پاکستان اور افغانستان میں سابق سفیر رائن کروکر نے ا ایک مضمون واشنگٹن پوسٹ میں لکھا ہے جو خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔
سابق سفیر کا کہنا ہے کہ امریکہ کا افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ در حقیقت ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے۔ وہ افغانستان پر قبضے کے بعد پہلے سفیر تھے اور انھوں نے امریکہ کا بند سفارت خانہ کھولا تھا۔ انھوں نے جنگ کی تباہ کاریوں کا ذاتی مشاہدہ کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”کابل آمد پر ائر پورٹ بند تھا کیونکہ ا کے رن وے پر جگہ جگہ بمباری سے گڑھے پڑ گئے تھے۔ بگرام ملٹری بیس سے جنوب میں کابل کا راستہ ایک بنجر علاقے سے گزرتا ہے جہاں کوئی زراعت ممکن نہیں تھی۔ کابل شہر میں ہر طرف تباہ شدہ عمارتیں اور ٹوٹی پھوٹی سڑکیں تھیں اور فضا بارود کی بو سے بھری تھی۔ اسکی حالت جنگ عظیم میں تباہ شدہ برلن سے مختلف نہیں تھی۔ دو دھائیوں سے جاری مستقل جنگ نے ملک کا سارا انفراسٹرکچر تباہ کن میراث میں چھوڑا تھا۔ خانہ جنگی سے افغانی عوام شدید متاثر ہوئے تھے اور طالبان کے بعد تو خصوصاً خواتین اور بچیاں سب سے زیادہ متاثر ہوئیں۔“ آگے چل کر کروکر لکھتے ہیں کہ ”امریکہ کے قبضے کے بعد جب القاعدہ کو پناہ دینے کے سبب طالبان حکومت کا خاتمہ کردیا گیا ، تو امریکہ کی توجہ لوگوں کی فلاح بہبود پر تھی نہ کہ اشیاءکی فراہمی پر۔ اس سلسلے میں خواتین کی معاشی حالت کی بہتری اور تعلیم کے بہت سے پروگرام شروع کیے گئے۔ طالبان حکومت کے خاتمے پر افغانستان میں صرف نو لاکھ طالب علم اسکولوں میں تھے جو سب لڑکے تھے۔ جب میں نے افغانستان کو 2012 میں چھوڑا تو اس وقت طلبا کی تعداد اسّی لاکھ ہوگئی تھی جس میں چالیس فیصد لڑکیاں تھیں۔ اس تعلیم کا نتیجہ خواتین کی ہر شعبے میں نمائندگی کی صورت میں نکلا اور ہم نے انکی بھرپور سر پرستی کی اور میں نے اکثر انکے اعزاز میں تقریبات کا اہتمام کیا اور انہیں اعزازات سے نوازا“۔ اس پس منظر میں رائن کو یہ صدمہ ہے کہ آج امریکہ براہ راست طالبان سے اپنی فوجوں کو نکالنے کا معاہدہ کر رہا ہے، صرف اس وعدے پر کہ وہ دوبارہ اپنے ملک میں القاعدہ ایسے عناصر کو نہیں آنے دینگے۔ اس معاہدے میں افغان حکومت کو شامل نہیں کیا گیا ہے کیونکہ طالبان اس کو کٹھ پتلی حکومت سمجھتے ہیں۔ طالبان کے اس مطالبے کو تسلیم کرکے امریکہ نے خود افغان حکومت کی قانونی حیثیت کو مشتبہ بنا دیا ہے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ یہ سارا عمل بدقسمتی سے ا±سی عمل سے مشابہ ہے جو پیرس مذاکرات کی صورت میں جو جنگِ ویتنام کے دوران پیش آیا تھا۔ جب بھی اور آج بھی، امریکہ ہتھیار ڈالنے کی شرائط طے کررہا تھا۔ طالبان بیشمار وعدے کرلینگے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ امریکہ کی روانگی کے بعد ان کو پوار کرنے کا کوئی نہیں پوچھے گا۔ رائن سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اسکے مقابلے میں امریکہ کو یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ یہ معاہدہ صرف اس صورت میں آگے بڑہے گا جب افغان حکومت اس میں پوری طرح شامل ہوگی۔ اس شرط کو پورا کیے بغیر امریکہ اس وقت تک افغانستان میں رہے گا جب تک موجودہ حکومت چاہے گی اور اس کی قومی سلامتی کے مقاصد تقاضا کرینگے۔ یوں امریکہ اپنی اقدار کا تحفظ کرسکے گاجس میں خواتین کے حقوق بھی شامل ہیں۔
رائن کروکر ایک نامور سفارت کار ہیں۔وہ امریکی اقدار پر یقین رکھنے والے سفارت کاروں میں سے رہے ہیں جن میں اولین حیثیت انسان دوستی اور رواداری کو حاصل ہے۔ لیکن انصاف کی چند باتیں ان کی نظر سے پوشیدہ رہ گئیں یا انہوں نے ان کا بیان ضروری نہیں سمجھا۔ برطانیہ کے نامور کالم نگار سائمن جیکینز نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ طالبان کی حکومت سے اختلاف ہوسکتا ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ قرون دسطی کی اقدار کے حامل تھے، لیکن ان کا نائن الیون سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ کسی کے گھر میں گھس کر اسے بیدخل کرنا ، وہ بھی اس نیم سچائی پر کہ وہ القاعدہ کو پناہ دے رہے تھے، کسی بھی عالمی قانون کی رو سے جائز نہ تھا سوائے ننگی طاقت کے زور پر۔ جبکہ طالبان نے اس بات کی تجویز رکھی تھی کہ ہم اسامہ اور دیگر القاعدہ عناصر، جو پشتون روایت کے مطابق انکی پناہ میں تھے، اور جن کے بارے میں کوئی ثبوت پیش کرنے سے گریز کیا جارہا ہے، کو ایک تیسرے ملک کے حوالے کرنے کو تیار ہیں، تو اس تجویز کو نہایت تحقیر اور تکبر کیساتھ رد کردیا گیا۔ جب امریکہ نے غضبناک ہوکر افغانستان پر حملہ کیا تو یہ اس کی ایک فاش غلطی تھی۔ وہ افغانستان میں داخل ہوگیا لیکن اسکے سامنے کوئی واضح مقصد نہیں تھا۔ یہ کیسے طے کرلیا گیا کہ اگر طالبان نے القاعدہ کو پناہ دیکر کوئی خطا کی ہے تو اسکی سزا انکے ملک پر قبضہ کرنا اور انکے طرز زندگی کو اپنی سوچ کے مطابق تبدیل کرنا ہے۔ طالبان کمزور ضرور تھے لیکن انھوں نے اپنی بکھری قوت کو بچا کر اس بات کا فیصلہ کرلیا کو وہ اس قبضے کی مزاحمت کرینگے چاہے اس میں کتنا ہی وقت صرف کیوں نہ ہوجائے۔ وہ اپنے گھر میں تھے لہذا انہیں گھر واپسی کا انتظار نہیں تھا۔ یہ مسئلہ قابض فوج کا تھا جو سات سمندر پار کرکے آئی تھی۔
امریکہ نے اس عرصے میں اپنے مقاصد کو بار بار بدلا ہے۔ کبھی یہ افغان قوم کی تعمیر و ترقی، کبھی القاعدہ کا خاتمہ اور کبھی دہشت گردی کے خاتمے کے عنوان سے رقم ہوتا رہا ہے اور جس حکومت کو انہوں نے اس عرصے میں اقتدار میں رکھا وہ کسی قابل قدر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکی۔ سیاسی عدم استحکام کرپشن اور اقربا پروری اور لوٹ مار کا ایک بازار گرم رہا ہے۔ وہ فوج جو اس نے تیار کی وہ اس قابل نہیں ہے کہ چند دن بھی طالبان کی مزاحمت کے سامنے کھڑی ہوسکے۔ آج بھی اس فوج میں گھوسٹ فوجیوں کا مسئلہ درپیش ہے جو امریکہ اور اتحادیوں سے تنخواہیں تو وصول کرتے ہیں لیکن ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ طالبان نے اپنے دور اقتدار میں افیون کی کاشت کو ختم کردیا تھا۔ لیکن وہ اب پوری آب و تاب کے ساتھ پیداوار دے رہی ہے اور اس سے بنی ہیروئین ساری دنیا میں برآمد ہورہی ہے۔ براو¿ن یونیورسٹی نے اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ افغانستان اور عراق کی جنگوں سے متعلق اعداد شمار کو جمع کیا جائے۔ یہ اعداد و شمار ہوشربا معلومات سے بھرے پڑے ہیں۔ امریکہ نے افغان جنگ میں اپنے تین ہزار فوجی کھوئے اور بیس ہزار زخمی ہوئے جن کی ایک بڑی تعداد ہمیشہ کیلئے معذور ہوگئی۔ لاکھوں افغان، طالبان اور پاکستانی فوجی اور شہری بھی اس جنگ میں ہلاک ہوگئے۔ امریکہ اور اتحادیوں نے اس جنگ میں ایک ہزار ارب ڈالر سے زیادہ کے جنگی اخراجات براداشت کیے۔ کیا یہ قربانیاں کسی اعلی و ارفع مقصد کے حصول میں صرف ہوئیں یا جھوٹی انا کی تسکین اور غیظ و غضب کو دور کرنے کا باعث بنیں۔ آج جب نائن الیون کے بعد پیدا ہونے والی ذہنی کیفیت ختم ہوچکی ہے امریکی قوم کو اس بات کا جائزہ لینا پڑیگا کہ کیا اسکے ردعمل نے دنیا میں دہشت گردی کی بیخ کنی کی ہے یا اس سے دنیا کے ایک بڑے حصے خصوصاً مشرق وسطی میں تباہی و بربادی کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا ہے جس کو روکے بغیر دنیا کا امن تہہ و بالا رہے گا۔ رائن کروکر کا افسوس اپنی جگہ لیکن انہیں اس بات کا بھی سوچنا چاہیے کہ وہ لوگ بھی قابل قدر ہیں جنہوں نے اپنی آزادی کی جنگ اپنے زور بازو پر جیتی ہے۔ مذاکرات کی میز پر صرف متعلقہ فریقین ہی بیٹھیں گے اور کامیابی کے حصول کے بعد اٹھیں گے۔ پیرس مذاکرات سے تشبیہ ہماری نظر میں قابل فخر ہونی چاہیے کیونکہ آج امریکہ اور ویتنام بہترین دوست ہیں اور ویتنام ایک ابھرتی ہوئی معاشی قوت ہے۔ کل افغانستان اور امریکہ ایک دوسرے بندھن میں بندھ سکتے ہیں۔ لیکن اسکی بنیاد آزاد مرضی و منشاءہوگی نہ کہ جبر و استبداد۔ تاریخ ایک موڑ مڑ گئی ہے اور کوئی دنیاوی طاقت اس کو پلٹ نہیں سکتی۔