اسد عمر کا شکریہ، وزیراعظم بہت ناراض ہیں!!!!!

لیجئیے جناب اب پاکستان تحریک انصاف کے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی وزیر اسد عمر نے بھی اعتراف کر لیا ہے کہ پاکستانی عوام مشکل میں ہیں اور اس وقت لوگوں کی زندگیاں مشکل میں ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ مہنگائی کا جن بے قابو ہو چکا ہے۔ رواں سال کے پہلے مہینے میں مہنگائی کی شرح 14.6 فیصد رہی جو کہ پاکستان تحریک انصاف حکومت میں سب سے زیادہ ہے۔ادارہ شماریات پاکستان کی ماہانہ رپورٹ کے مطابق دسمبر 2019 میں مہنگائی کی شرح 12.6 فیصد تھی۔ جنوری میں یہ بڑھ کر 14 اعشاریہ 6 فیصد ہو گئی۔ جنوری 2019 میں یہ شرح 5.6 فیصد تھی۔ اسد عمر کہتے ہیں کہ وزیراعظم کو مہنگائی کا احساس ہے اور وہ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کھڑے ہو گئے ہیں۔
اسد عمر پہلے وزیر نہیں ہیں جنہوں نے ملک کے سب سے بڑے مسئلہ پر خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس سے پہلے بھی وفاقی حکومت میں شامل وزراء اس حوالے سے وزیراعظم تک اپنی بات پہنچا چکے ہیں۔ حکومت کا ادارہ شماریات تو آج اعدادوشمار عوام کے سامنے رکھ رہا ہے۔ حکومتی وزراء کو تو آج مہنگائی نظر آ رہی ہے اور انہیں عوام کی زندگیاں مشکل ہوتی نظر آ رہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی کا بے قابو ہوتا جن حکومتی شخصیات کی عدم توجہ اور مسائل کو حل نہ کرنے کے لیے غیر سنجیدہ رویہ ہے۔ پارلیمنٹ میں مختلف حوالوں سے قانون سازی ہو رہی ہے۔ اراکین پارلیمنٹ اپنی تنخواہوں کے حوالے سے بل تیار کر رہے ہیں۔ اپنے اپنے تحفظ کے لیے سیاست دان تمام کام کر رہے ہیں۔ کہیں حکومت سے نکل رہے ہیں تو کہیں حکومت میں شامل ہونے کے لیے بات چیت ہو رہی ہے۔ حکومت والے ناراض اراکین اسمبلی اور اتحادیوں کو منانے کی کوششیں کرتے نظر آ رہے ہیں۔ کوئی ایم کیو ایم سے مل رہا ہے تو کوئی گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس سے بات کر رہا ہے، کسی کو پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم کو منانے کا ٹاسک دیا جاتا ہے۔ اس ساری سیاسی صورتحال میں اتار چڑھاؤ اور جقڑ توڑ میں کہیں بھی عوام نظر نہیں آتی۔ وہ عوام جس کے ووٹوں سے یہ حکومت بنی ہے۔ وہ عوام جن کی مہروں سے اسمبلیوں کا وجود ہے اس عوام کے لیے دوہزار اٹھارہ سے آج تک حکومتی سطح پر مہنگائی کو قابو کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ زرعی ملک میں آلو مہنگا ہو جائے، گندم کا بحران پیدا ہو جائے، پیاز کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہے، چینی ہم پیدا کریں اور یہ ہمارے ہی بازاروں میں امپورٹڈ قیمتوں پر مل رہی ہو یعنی ہر وہ چیز جو اپنے ملک میں پیدا ہوتی وہ اپنے ہی شہریوں کی پہنچ سے دور نکل جائے۔ اگر ایسا ہوا ہے تو پھر اسکی دو وجوہات ہو سکتی ہیں پہلی یہ کہ یا تو ہم زرعی ملک نہیں رہے دوسری کہ ہم انتظامی معاملات میں اتنے کمزور ہو گئے ہیں کہ اپنے اثاثوں کی حفاظت ہی نہ کر سکیں۔ اپنے بڑے اثاثے کو مفاد پرستوں، ناجائز منافع خوروں اور بے رحم سرمایہ داروں کے ہاتھ گروی رکھ دیں۔ ہم اوپر بیٹھے تماشا دیکھتے رہیں اور عوام نیچے بھوک سے مرتے رہیں۔ ہم اوپر بیٹھے اقدامات کے لیے میٹنگز کرتے رہیں اور عوام نیچے بددعائیں دیتے رہیں۔ یہ صورتحال کب تک برداشت کی جا سکتی ہے۔ عوام کب تک اس مہنگائی کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ مصائب و مشکلات کا شکار دکھوں ماری عوام کب تک گھبرائے بغیر مہنگائی کے جن کا ظلم برداشت کرتی رہے گی۔
جناب وزیراعظم آپکا ووٹر چیخ رہا ہے، کہیں اسے ادویات کی کمی کا سامنا ہے، کہیں اسے علاج کے لیے سہولیات نہیں مل رہیں، کہیں بچوں کو پینے کے لیے دودھ نہیں مل رہا، کہیں کوئی بوڑھی ماں اپنے بیٹے کو دوائی کے پیسوں کا تقاضا کرنے کے قابل نہیں ہے، کہیں بچے اپنے والد سے سکول کی فیس کی ادائیگی کا تقاضا کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہے ہیں، کہیں بیوی اپنے شوہر سے گھر کا خرچ مانگتے ہوئے ڈر رہی ہے، کہیں ملازمتوں کے مواقع کم ہو رہے ہیں، کاروبار بند ہو رہے ہیں، عوام کے لیے زندگی مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ بات گھبرانے سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ آپ کب تک اس حوالے سنجیدہ اقدامات اٹھائیں گے تاکہ اور کچھ نہیں تو عوام کو کم از کم دو وقت کی روٹی تو سکون سے مل سکے۔
اشیا خوردونوش کی قیمتوں کے حوالے سے ہماری تجاویز کو مان لیا جاتا اور متعلقہ حکام اور وزیروں کو پابند کرتے تو حالات مختلف ہو سکتے تھے۔ یہ حالات انتظامی ناکامی، وزراء کی عدم دلچسپی اور توجہ کی کمی کی وجہ سے ہیں۔ آج بھی اگر دلجمعی سے کام کیا جائے، سٹیک ہولڈرز سے مل کر کام کیا جائے تو مہنگائی میں کم از کم تیس سے پینتیس فیصد تک کمی کی جا سکتی ہے۔ ہم نے چار اکتوبر کو عوام کی نبض پر ہاتھ کر حقیقت بیان کی تھی۔ بگڑتے ہوئے حالات اور حکومت کی سب سے اہم کام میں عدم دلچسپی کی وجہ سے آج گلی گلی حکومت کو بددعائیں دی جا رہی ہیں۔ وہ جو مفاد پرست ہیں اور ان کی دکانداری صرف منافقت کے سہارے چل رہی ہے، آپکو ناراض تو ان سے ہونا چاہیے جو آپکو حقیقت سے دور رکھتے ہیں۔ ہمیں آپکی ناراضی سے زیادہ عوام کے اترے چہروں کی پرواہ ہے۔ ہمیں آپکی ناراضی سے زیادہ بھوک سے تنگ عوام کی فکر ہے۔ہمیں آپکی ناراضی سے زیادہ اپنے پاکستانیوں کا دکھ ہے۔ ہم نے اپنے پاکستانیوں کے دکھوں کو کم کرنے کے لیے آواز بلند کی تھی۔ آج یہ ہر پاکستانی کی آواز ہے۔ آپ خود بھی فرما چکے ہیں کہ مہنگائی کے مسئلے پر آپ کو مس گائیڈ کیا گیا ہے۔ جناب وزیراعظم مسائل حکومتی کورٹ میں ہیں۔ اس کورٹ میں اچھا کھیل شروع ہو جائے تو مہنگائی میں کمی ممکن ہے لیکن اس کے لیے ایمانداری، دلجمعی، جوش و جذبے، وژن، گفتگو کی صلاحیت اور سٹیک ہولڈرز کو ساتھ ملا کر چلنے کی اہلیت ہو تو معاملات کو بہتر انداز میں چلایا جا سکتا ہے۔
آخر میں حبیب جالب کا شعر
ہماری شاعری میں دل دھڑکتا ہے زمانے کا
وہ نالاں ہیں ہماری لوگ کیوں توقیر کرتے ہیں

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...