رانا زاہد اقبال
گزشتہ روز چین کے سفیر ژاؤ جنگ نے کہا ہے کہ چین پر امن ذرائع سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اس کی ترقی کی سالانہ شرح میں گزشتہ سال اضافہ ہوا اور فی کس آمدنی دس ہزار ڈالرز سالانہ سے بڑھ گئی ہے۔ چینی سفیر نے مزید کہا کہ ہم اپنے شراکت داروں کی ترقی چاہتے ہیں اس میں پاکستان کو اولین ترجیح حاصل ہے۔ پاکستان سے ہمارا تعلق صرف سی پیک کی حد تک نہیں بلکہ دفاع اور عالمی امور سمیت تمام شعبوں میں تعاون موجود ہے۔ پاکستانی قوم کا مستقبل بہت روشن ہے اور یہ کہ سی پیک کسی صورت سست روی کا شکار نہیں۔ گوادر میں تیکنیکی تعلیم، ہسپتال ، نیا ہوائی اڈا، پاور پلانٹ اور صاف پانی کی فراہمی کے منصوبے مکمل ہوئے۔ سی پیک کے مزید سات منصوبے مکمل، دس تکمیل کے قریب ہیں۔ جب کہ ریلوے مین لائن ون منصوبہ جلد شروع ہو گا۔ اس سے قبل بھی نومبر 2019ء میں امریکی نائب وزیرِ خارجہ ایلس ویلز کے سی پیک کے حوالے سے ایک بیان کے جواب میں پاکستان میں چینی سفیر نے کہا تھا کہ یہ منصوبہ پاکستان کے لئے بہت اہم ہے اور یہ اس خطے میں گیم چینجر ثابت ہو گا۔ اس منصوبے کے تحت نا صرف پاکستان میں انفرا اسٹرکچر تیار ہو گا بلکہ انڈسٹریل زون مکمل ہونے پر 23 لاکھ پاکستانیوں کو ان صنعتوںمیں روزگار ملے گا۔
امریکہ اور بھارت کے پیٹ میں سی پیک منصوبے کے آغاز کے دن سے بہت مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ وہ دونوں کسی طرح اس منصوبے کو سبو تاژ کرنے اور کسی طرح ان منصوبوں کی نقول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ سی پیک کے توانائی منصوبوں کے اسٹرٹیجک پہلوؤں سے پریشان ہے اور وہ اس سلسلے میں آئی ایم ایف کو بھی ا ستعمال کر رہاہے۔ امریکہ، بھارت اور یورپ پاکستان کی معیشت کو ایک حد سے زیادہ ترقی نہیں کرنے دینا چاہتے تا کہ پاکستان اپنی پیداواری صلاحیت بڑھاکر دنیا میںاپنی کرنسی مستحکم نہ کر لے۔ معاشی استحکام کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان میں توانائی کے سستے ذرائع میسر ہوں۔ امریکہ آئی ایم ایف کے ذریعے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود پاکستان پر دباؤ ڈالتا رہا ہے کہ پاکستان تیل کی قیمتوں میں اتنی کمی نہ کرے کہ اس کی مصنوعات کی پیداواری لاگت میں عالمی منڈی کے مقابلے میں کمی آئے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں پانی سے بجلی بنانے کے تمام منصوبوں کو پہلے ہی امریکی اور بھارتی ایجنٹوں نے متنازعہ بنا رکھا ہے۔ اگرپاکستانی مصنوعات کی پیداواری لاگت میں کمی آتی ہے توعالمی منڈیوںمیں ہماری برآمدات جگہ بنا سکتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی قیمت بڑھے گی اورغیر ملکی قرضوں کا بوجھ کم ہو سکتا ہے۔
امریکہ کو یہ مسئلہ بھی درپیش ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کا مجموعی حجم 60ارب ڈالر تک پہنچ جانے پر قرضوں کا جو منافع پہلے امریکہ کو جاتا تھا اب وہ چین کو جائے گا۔ اقتصادی راہداری کی وجہ سے مستقبل میں پاکستان کا آئی ایم ایف پر سے انحصار بھی ختم ہو جائے گا۔ رواں سال 2020ء سے سی پیک کی رقوم کی واپسی دو ارب ڈالر سالانہ ہو گی جو پاکستان اپنی برآمدات بڑھا کر آسانی سے ادا کر سکتا ہے۔پاکستان کی اقتصادی راہداری در اصل چین کی معاشی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ چین دنیا میں معاشی طور پر ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے۔ جس انداز میں چین آگے بڑھ رہا ہے اس سے کوئی شک نہیں رہتا کہ مستقبل میں چین ہی عالمی لیڈر ہو گا۔ چین آگے بڑھنے کے لئے امریکہ کی طرح نہ تو مختلف ممالک پر جنگ مسلط کرتا ہے اور نہ ہی دباؤ کے حربے استعمال کرتا ہے بلکہ معاشی تعاون سے آگے بڑھنا ہی اس کی خواہش رہی ہے۔ چین پرانی سلک روڈ کو دوبارہ آمد ورفت سے بھرپور دیکھنا چاہتا ہے تاکہ اس کے ذریعے جنوبی ایشیا، مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور یورپ سے رابطہ ممکن بنایا جائے۔ اس راستے کے ذریعے چین ایک بار پھر ایشیا، افریقہ اور یورپ کو ملانا چاہتا ہے۔ جس کے لئے وہ دنیا کے 68ممالک میں 3 ٹریلین ڈالر خرچ کرنا چاہتا ہے۔ جب کہ امریکہ کو خدشہ ہے کہ سی پیک چائنہ کو معاشی طور پر امریکہ سے زیادہ مضبوط کر دے گا۔ چین چونکہ امریکی استعمار کے مقابلے میں ترقی پذیر ممالک کا ہمدرد اور معاون ثابت ہوا ہے اس بناء پر اس کی کمزوریاں بھی اس کی قوت بن رہی ہیں اور یہ امریکہ کی نسبت زیادہ کامیاب ثابت ہو رہا ہے۔ چین خلاف توقع تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے جب کہ امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ جمہوری ممالک داخلی طور پر جمود کا شکار دکھائی دے رہے ہیں جس سے ان کے معاشی مستقبل پر ایک سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔
ترقی پزیر ممالک کیلئے چین کا تعاون
Feb 03, 2020