دو مُلّائوں میں مرغی حرام

اب تو شہرقائد کے عوام بے بس و مجبور ہوچکے ہیں۔ دُہائیاں پر دُہائیاں، مگر نااہل اور نکمّی صوبائی و وفاقی حکومتوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ بھتہ مافیا، اسکول مافیا، دودھ مافیا، کتا مافیا کے بعد اَب آٹا مافیا اور چینی مافیا کے رحم و کرم پر کراچی کے عوام کو سسکتے، بلکتے اور اپنی حالت پر بین کرتے چھوڑ دیا گیا ہے۔ کمیٹیوں پر کمیٹیاں، انکوائریاں اور میڈیا ٹرائل سے آگے کچھ کام نہیں ہورہا۔اسٹیبلشمنٹ کی خواہش کے پیش نظر کہ ریاست میں امن و سکون ہو اور بدعنوانی کی عفریت سے نجات حاصل ہو، شاید اس لئے پاکستان تحریک انصاف کے سر پر حکومت کا ہُما بٹھایا گیا۔ کراچی کی باگ ڈورتین دہائیوں بعد متحدہ قومی موئومنٹ کے ہاتھوں سے نکل کر پی ٹی آئی کے پاس آئی۔ مگر افسوس تحریک انصاف کی کارکردگی گزشتہ عشرے کی ایم کیو ایم کی کارکردگی سے بھی کہیں زیادہ اَبتری کا شکار رہی۔ کراچی جیسے بڑے شہر سے بارہ رُکن قومی اسمبلی منتخب ہونا خود پی ٹی آئی کیلئے بھی حیران کن تھا۔ گو تحریک انصاف نے کراچی کی نشستوں پر میدان تو مار لیا مگر اپنی نااہلی اور ناتجربہ کاری نے اُن کی کارکردگی پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگادیا۔ بلّے پر نشان لگانے کا جو خمیازہ کراچی کے عوام بھگت رہے ہیں ایسا انجام تو پتنگ پر مہر لگانے کا بھی نہیں ہوتا تھا۔پاکستان پیپلز پارٹی گو صوبے کی حکمران جماعت ہے مگر اعلیٰ درجے کی نکمّی سیاست اور نااہلی نے بینظیر بھٹو شہید اور قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو کے وِژن کو جس طرح خود پیپلز پارٹی نے گزشتہ بارہ سالوں میں سبوتاژ کیا ہے اُتنا تو آمر جنرل ضیاء الحق نے بھی نہیں پہنچایا ہوگا۔ مگر کیا کہیں صاحب! گھر کو آگ لگتی ہے گھر کے ہی چراغ سے۔ایسا ہی چراغ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے پاس بھی ہے اور ایک چراغ کراچی کے عوام کے پاس بھی ہے، جب جب
کسی کو اپنا سمجھ کر اقتدار کی کرسی پر بٹھایا اُس نے وفا کے بدلے جفا ہی کی۔ سکون کی جگہ بے سکونی دی۔ امن کے بجائے بدامنی پھیلائی۔ روزگار کے بدلے بے روزگاری کا تحفہ دیا۔ سر چھپانے کو جوچھت میسر تھی اُس کو اُنہی پر ڈھادیا گیا۔ تجاوزات کے نام پر غریبوں کی کمائی کو زمین بوس کردیا گیا مگر اُن تجاوزات کو قانونی بنانے والے، فروخت کرنے والے، غریب سادہ لوح عوام کو لوٹنے والے سیاسی نمائندوں و سرکاری اہلکاروں کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ صرف ایک منظور کاکا کے خلاف کارروائی شروع کی گئی تو اُسے فرار کروادیا گیا۔ مگر کراچی کے غریب عوام کی خون پسینے کی کمائی سے خریدے گئے گھروں کو اُن کے سامنے منہدم کردیا گیا اور بے آسرا و بے چھت کردیا گیا۔ ایم کیو ایم نے اپنے اردو بولنے والوں کے نام پر تین دہائیوں تک حکمرانی کی، شہر میں ترقیاتی کاموں کا بھی جال بچھایا گیا۔ جہاں ایک طرف ایم کیو ایم میں شائستہ افراد کی کمی نہیں وہاں شدت پسندوں کا بھی کال نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کے ایک ہاتھ میں اگر چاند ہے تو دوسرے ہاتھ میں سورج اور حدت سورج کی ہی زیادہ ہوتی ہے جو زمین اور انسان دونوں کو جھلسا دینے کا ہنر جانتا ہے اور تباہ و برباد بھی کردیتا ہے۔ ایم کیو ایم نے کراچی کی سیاست میں جس وقت اور جس ماحول میں انٹری دی تھی وہ اَب پھر سے رونما ہونے جارہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی بدقسمتی کہیں یا عمران خان کی۔ عمران خان سترہ سال کی جدوجہد کے بعد وزیراعظم پاکستان تو بن گئے مگر اُن کے پاس اہل افراد کی ٹیم کی شدیدقلت ہے۔ وزیراعظم کے پاس ایسے لوگوں کا جنجال پورہ موجودہ ہے جو ہر حکومتوں کے ساتھ رہ کر اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں جن کی اپنی کوئی حیثیت نہیں مگر حکومتوں کو ملیامیٹ کرنے میں بڑا کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ عمران خان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہونے جارہا ہے۔ گو حقیقی حزبِ اختلاف فعال نہیں ہے، مگر حکومت کے اندر جو حزبِ اختلاف ہے وہی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجانے کیلئے کافی ہے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ اس کارنامے میں اپنا حصہ ملانے سے قاصر نظر آرہی ہیں کیونکہ وہ چاہتی ہیں کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی عالمگیر خان کراچی میں ایک فعال شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ جو عوام کے مسائل کو میڈیا پر لاتے اور سندھ حکومت کے خلاف ایک بہت بڑے سرگرم رُکن کے طورپر متعارف ہوئے تھے مگر ہائے افسوس کے رُکن قومی اسمبلی بنتے ہیں عالمگیر خان ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔یہی حال کراچی سے دیگر منتخب ارکانِ قومی اسمبلی کا بھی ہے۔ جنہوں نے منتخب ہونے کے بعد سے اَب تک اپنے حلقہ میں جانے کی توفیق بھی نہیں کی۔بادی النظر میں تو پیپلز پارٹی نے کراچی سے دستبرداری اختیار کرچکی ہے۔اب کراچی کے عوام ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کی چکّی کے پاٹوں میں پس رہے ہیں۔ دونوں ہی ذمہ داریاں ایک دوسرے پر ڈالنے پر مصر ہیں۔ اقتدار کا خبط جب کسی پر سوار ہوجاتا ہے تو اتنی آسانی سے نہیں اُترتا۔ عزتیں نیلام ہوتی ہیں، پگڑیاں اُچھالتی جاتی ہیں، تب کہیں جاکر یہ خبط اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔ مگر اس سب میں نقصان صرف اور صرف عوام کا ہوتا ہے اور کراچی کے عوام پر خوشحالی کے آثار دور دور تک نظر نہیں آرہے۔

ای پیپر دی نیشن