حضرت سید پیر شاہ مردان شاہ کی عرفیت سکندر شاہ اور خطاب چھٹ دھنی ہے ۔ آپ سلسلہ راشدیہ کے پیران پگاروہفتم تھے۔ آپ 22نومبر 1928ء کو پیر جوگوٹھ ضلع خیرپور میں عظیم مجاہد سورھیہ بادشاہ حاجی پیر صبغت اللہ شاہ ثانی شہید کے گھر پیدا ہوئے ۔ آپ کی ابتدائی پرورش حرجماعت کے نہایت معتبر و معزز خلفاء کے ہاتھوں میں ہوئی۔ اس دوران آپ کے والد بزرگوار قید فرہنگ میں جلوہ افروز تھے ۔1936ء میں سورھیہ بادشاہ انگریز کی آٹھ سالہ قید سے رہا ہو کر سکھر پہنچے تو سندھ کے لوگوں کا سمندر امنڈ آیا ۔ حضرت شاہ مردان شاہ کی زندگی کا یہ اہم ترین اور انمنٹ واقعہ ہے ۔آپ کے والد نے رہائی کے فوراً بعد آپ کی تعلیم و تربیت کا اہتمام فرمایا آپ کو اپنے عظیم باپ سے تھوڑی ہی مدت میں بہت محبت و تربیت میسر آئی۔ حضرت شاہ مردان ْشاہ کے والد گرامی تحریک حریت کے سالاروں میں سے تھے ۔ آپ نے آٹھ سالہ قید کی رہائی کے بعد کچھ ہی عرصے میں انگریز کیخلاف پھر سے حر مجاہدوں کا ایک لشکر جرار تیار کرلیا تھا ۔ اب کی بار آپ فیصلہ کن جنگ کی تیاری میں تھے کہ گرفتار کرلئے گئے ۔ کراچی میں نظر بند ہوئے جہاں آپ نے اپنے اہل و عیال کو بھی بھلا دیا مگر حر مجاہدوں کی بغاوت اور سرفروشی اپنے عروج پر تھی ۔سندھ اور گردو نواح میں انگریز اور اس کے وفاداروں کا جینا حرام کیا تھا لہذا حضرت سورھیہ بادشاہ کو 20مارچ 1944ء کو جیل میں پھانسی پر چڑھا دیا گیا اس وقت حضرت شاہ مردان شاہ کی عمر پندرہ برس تھی آپ دونوں بھائیوں کو سندھ کے مشہور مسلم لیگی رہنما جناب ہاشم زر گر کے ذریعے پہلے علی گڑھ میں زیر تعلیم رکھا گیا پھر انگلستان پہنچا دیا ۔ تاج برطانیہ نے ان پیرزادوں کو اس لئے صوبہ سندھ اور حر مجاہد وں سے دور رکھا گیا کہیں حر تحریک اپنے نوخیز رہنمائوں کی قیادت میں دوبارہ منظم ہو کر شعلہ جوالہ ہوجائیں ۔ حکومت جانتی تھی کہ پیران پگارو سابقہ سواسوسال سے عسکری جدوجہد میں مصروف ہیں اگر صاحبزادگان یہاں رہے تو سندھ میں امن ناممکن ہوگا لہذا تقسیم ہند تک دونوں پیر زادے برطانیہ ہی میں مقیم رہے ۔
14اگست 1947ء تحریک حریت کامیابی سے سرفراز ہوئی تو ہند و بنئے نے پاکستان کو کمزور کرنے کی دوسری سازشوں کی طرح یہ ایک نیا جال بچھایا کہ پیران پگارو کو بھارت لیجا کر ان کی گدی بحال کی جائے بعدازاں ان کو ایک عسکری قوت میں ڈھال کر پاکستان کے خلاف استعمال کیا جائے ۔ سندھ کے یہ بہادر اور جری بیٹے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کی اس پیشکش کو سورھیہ بادشاہ کے پرعزم صاحبزادوں نے بڑے جلال اور وقار کے ساتھ یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ ہمارے بزرگوں نے اس خطے میں اسلامی ریاست کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے لاکھوں جانوں کے نذرانے پیش کئے ۔پاکستان ان شہیدوں کے لہو کا ثمر ہے ہم ہندوستان جانا پسند نہیں کرتے اسی اثناء پاکستان میں پیرزادوں کو واپس لانے کی تحریک نے جنم لیا ۔ خانوادہ راشدیہ کے ایک بزرگ پیر افضل شاہ گیلانی نے حکومت پاکستان کو سارے حالات سے باخبر کرتے ہوئے مسند پگاروبحال کرنے کی کوشش کا آغاز کیا ۔ شیخ دین محمد کشمیری سندھ کے گورنر تھے جو سید افضل شاہ گیلانی کے مریدوں میں شمار ہوتے تھے ۔ پیر افضل شاہ گیلانی نے پیران پگارو کی گدی بحال کرنے کی ذمہ داری گورنر سندھ کے سپرد کی لہذا گورنر نے حکومت سے استدعا کی جس کی تائید مزید دوسرے قومی رہنمائوں کی جانب سے بھی ہوئی۔ حکومت نے بلا تعامل گدی بحال کرنے کا اعلان کیا ۔ گورنر سندھ پیر جوگوٹھ حاضر ہوئے جہاں پیر افضل شاہ اور دوسرے متعلقہ افسر بھی موجود تھے ۔ گورنر سمیت تمام لوگ درگاہ مبارکہ روزہ دھنی اور پیران پگارو کی رہائش گاہوں کو برطانوی گولہ باری سے تباہ حالی کا منظر دیکھ کر آبدیدہ ہوگئے لہذا فوری طور پر درگاہ اور رہائش کی تعمیر اور تزئین کا حکم جاری کیا چنانچہ شاہ مردان شاہ کی والدہ اور پھوپھی حضور نے دیگر رشتے داروں کے ساتھ مل کر تعمیر اور گدی کی بحالی تیاریاں شروع کر دیں کیونکہ دونوں شہزادے انگلستان میں زیر تعلیم تھے ان کو واپس لایا گیا ایک بار پھر بڑی بربادی کے بعد 1936ء کی طرح جشن کا سماں تھا لوگ اپنے مرشدزادوں کو دیکھنے کیلئے بڑے بیتاب تھے اس دن کے لئے حر مجاہدوں نے اپنے رشتے ناطے قربان کرکے برطانوی حکومت کا سندھ میں رہنا محال کر ڈالا تھا ۔4فروری 1952ء کو ایک عظیم الشان روحانی اجتماع میں راشدیہ خاندان کے وقاراور روایات کے عین مطابق گدی بحال کی گئی جس میں خلفاء حضرات کی مشاورت کے بعد شاہ مردان شاہ ثانی پیر پگارو ہفتم مسند نشین ہوئے۔
دوسری جانب نئے پیر پگارو کی ذمہ داری سنبھالتے ہی شاہ مردان شاہ نے پہلا کام یہ کیا کہ حکومت پاکستان سے رابطہ کرکے برطانوی دور میں حر مجاہدین کے خلاف بننے والے ظالمانہ قوانین کو ختم کرکے کیمپوں میں نظر بند تمام مجاہدین کو رہا کر وایا جائے لہذا حکومت پاکستان نے تاج برطانیہ کے نو آبادیاتی نظام کے قانون کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے اپریل 1952ء کو تحریک آزادی کے تمام قیدیوں کو باعزت رہا کرنے کا اعلان کیا ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان باوفا قیدیوں اور ان کی اولاد کو عظیم خدمات کے اعتراف اعزازات اور انعامات سے نوازا جاتامگرپورے پاکستان میں تحریک آزادی کے مخلص اور دیانتدار غازیوں اورشہیدوں کی اولاد کو باعزت مقام سے دور رکھا گیا خوشامدی اور کاسہ لیسی افراد ہی ہمیشہ شاہی دسترخوان اور انعام و اکرام کے مستحق ٹھہرے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔