ایل ڈی اے نے اندھیر نگری مچا فکھی ، خدا کا نام لیں لوگوں کو زندہ رہنے دیں : ہائیکورٹ

Feb 03, 2021

لاہور (اپنے نامہ نگار سے) لاہور ہائیکورٹ نے نجی ہائوسنگ سوسائٹی کا اراضی کیس 34 سال سے التواء کا شکار ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دئیے ہیں کہ ایل ڈی اے نے اندھیر نگری مچا رکھی ہے۔ خدا کا نام لیں لوگوں کو زندہ رہنے دیں۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس محمد قاسم خان نے نجی ہائوسنگ سوسائٹی کی اراضی کیس کی سماعت کی۔ ڈی جی ایل ڈی اے احمد عزیز تارڑ سمیت دیگر افسر پیش ہوئے۔ درخواست گزار نے کہا کہ معاملہ چونتیس سال سے زیر التواء ہے، کہیں شنوائی نہیں ہو رہی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا ایل ڈی اے نے اندھیر نگری مچا رکھی ہے۔ خدا کا نام لیں لوگوں کو زندہ رہنے دیں۔ آپ اپنی نالائقی لوگوں پر تھوپنا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ایل ڈی اے کے وکیل سے استفسار کیا کہ کتنا عرصہ ایوارڈ جاری نہیں کیا۔ وکیل نے بتایا کہ اب ایوارڈ جاری نہیں ہو سکتا۔ چیف جسٹس محمد قاسم خان نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک نسل ختم ہو جاتی ہے لیکن ایل ڈی اے نے تو بے حسی کی انتہا کی ہوئی ہے۔ اس عرصے میں جتنے افسر آج تک رہے ہیںان کو کروڑوں روپے جرمانہ ہونا چاہیے، آپ کے ایل ڈی والے عقل سے کام کیوں نہیں لیتے۔ بے حسی کی کوئی حد ہوتی ہے۔ ایل ڈی اے کے وکیل نے استدعا کی کہ یہ کیس ڈی جی ایل ڈی اے کو بھیج دیں۔ چیف جسٹس محمد قاسم خان نے کہا کہ آج 34 سال بعدکیس ڈی جی کوکیوں بھیجوائوں، ان کو جیل کیوں نہ بھیجوں۔ اگلے ہفتے کیس رکھ رہا ہوں اگر کچھ کر سکتے ہیں تو کر لیں، وگرنہ اس پر بھاری جرمانہ کروں گا۔ معاملہ اینٹی کرپشن کو بھیجنا پڑا تو بھیجوں گا۔ سماعت 9 فروری تک ملتوی کر دی۔ ادھر  لاہور ہائیکورٹ نے گرین لینڈ ایریاز پر ہائوسنگ سوسائٹیوں کی تعمیرات کیخلاف درخواست پر سماعت کے دوران ڈی جی ایل ڈی اے کے جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے چیف سیکرٹری پنجاب کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا جبکہ فاضل عدالت نے ایل ڈی اے میں ڈیپوٹیشن پر تعینات افسروں کی فہرست بھی طلب کرلی۔ جسٹس محمد قاسم خان نے شہری مبشر الماس کی درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کے وکیل نے موقف اپنا یا کہ 8دسمبر 2020ء کو عدالت نے گرین لینڈ ایریاز پر غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیوں اور اس پر حکم امتناعی بارے رپورٹ طلب کی۔ ایل ڈی اے کی جانب سے غیر واضح رپورٹ پیش کی گئی، ابھی تک زرعی زمینوں پر غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیاں بنانے والے کسی ذمہ دار کا تعین نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس محمد قاسم خان نے درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ان ڈائریکٹ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ڈیپوٹیشن پر آنے والے افسران سونے کی کان سے اپنا حصہ لینے آتے ہیں۔ چیف جسٹس محمد قاسم خان نے کہا کہ ڈی جی صاحب بتائیں کتنے ہزار گرین ایریاز پر ہائوسنگ سوسائٹیاںقائم ہیں۔ ڈی جی ایل ڈی اے نے جواب دیا کہ 241 ہائوسنگ سوسائٹیاںگرین ایریاز پر قائم ہیں۔ 62 کی منظوری ہوچکی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا 62سوسائٹیوں کی منظوری کے لئے کمشنر کی منظوری سے کمیٹی نے قانونی تقاضے پورے کئے۔ چیف جسٹس نے ڈی جی ایل ڈی اے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایل ڈی اے کچھ نہیں کرسکتا تو کیوں نہ سیشن جج کی سربراہی میں کمشن بنا دیں، ماسٹر پلان کا تو بیڑہ غرق کردیا گیا ہے۔ لگتا ہے سب نے حصے بانٹے ہوئے ہیں، موٹا حصہ آپ کا ہوتا ہے۔ قانون اتنا کمزور نہیں، اگر آپ لوگ ذمہ داری پوری نہیں کرسکتے تو عہدے چھوڑ دیں۔ سماعت 4 فروری تک ملتوی کر دی۔

مزیدخبریں