اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ اور پاکستان کے نقطہ نظر میں افغانستان کے حوالے سے یکسانیت پائی جاتی ہے۔ وہ بھی تشدد میں کمی کے خواہشمند ہیں اور ہمارا نقطہ نظر بھی یہی ہے۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا کر نے والی طاقتیں، سفارتی محاذ پر پاکستان کو مشکلات سے دو چار کر رہی ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے دوسرے فیز میں جامع منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ جب ہمیں حکومت ملی تو پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔ اس وقت دوست ممالک اگر ہماری معاونت نہ کرتے تو صورتحال مختلف ہوتی۔ بہت سے ہمارے سیاستدانوں نے اپنی سیاسی دکان چمکانے کیلئے کشمیر کے معاملے کو پیچھے دھکیل دیا۔ دفتر خارجہ کے مطابق ایک بیان میں وزیر خارجہ نے کہا سفارتی محاذ پر درپیش چیلنجوں کے ذمہ دار ہم سے زیادہ وہ لوگ ہیں جو چار چار دفعہ حکومت میں رہے۔ جو مسلسل بارہ بارہ برس تک کشمیر کمیٹی کی سربراہی پر متمکن رہے مگر نتائج سب کے سامنے ہیں۔ خارجہ پالیسی کا انحصار صرف آپ کی اپنی پالیسیوں پر نہیں ہوتا بلکہ بیرونی اثرات بھی اس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ بیرون ملک سفیر تعینات رہنے والے ان نزاکتوں کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان خدانخواستہ تنہا ہو گیا ہے ایسا ہرگز نہیں ہے، ہاں،بھارت کی کوشش رہی ہے کہ ہمیں تنہا کیا جائے اگر ایسا ہوتا تو ہمیں ہیومن رائٹس کونسل میں کامیابی نہ ملتی۔ آج ہندوستان کی ہندوتوا پالیسیوں کے سبب دنیا بھر میں انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ سفارت کاری کا گہرا تعلق معاشی صورتحال سے ہوتا ہے۔ ہم خارجہ پالیسی کو سیاسی اور معاشی صورتحال سے الگ کر کے نہیں دیکھ سکتے۔ اس لیے ہم نے معاشی سفارت کاری پر زور دیا، معاشی سفارت کاری محض درآمدات اور برآمدات تک محدود نہیں ہے یہ ایک جامع عمل ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ ہمارے برادرانہ تعلقات تھے، ہیں اور رہیں گے۔ پاکستان کی اہمیت سے سعودی عرب بخوبی واقف ہے۔ انہوں نے بیلنس آف پے منٹ میں ہماری مدد کی۔ کوئی مائی کا لال کشمیر کا سودا نہیں کر سکتا۔بھارت بلوچستان میں دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ ہم ہندوستان کی ملٹری پوسٹ کو ٹارگٹ کرتے ہیں اور ہندوستان معصوم لوگوں کو نشانہ بناتا ہے۔ ہم سرحدی علاقے میں مقیم گیارہ لاکھ شہریوں کیلئے بنکر بنانے کا سوچ رہے ہیں۔