’’ایدھر آمجا جنیے‘ آہڈا لا مجاجنیے ‘‘ گانے کے بعد صرف پنجابی زبان و ادب کا خطیب و ادیب ہی نہیں بلکہ شکسپیئرکے ساتھ انگریزی زبان و ادب میں ’’ رشتے داری‘‘ کا دعویدار بھی ’’آہڈا‘‘ کے معنی و مفہوم سے پوری طرح آشنا ہو چکا ہوگا۔ فصاحت و بلاغت کے حوالے سے اگر کہا جائے کہ عربی کے بعد دنیا کی دوسری فصیح و بلیغ زبان پنجابی ہے تو مبالغہ نہیں ۔ اب ’’سوکن آہڈا‘‘ کا مفہوم بھی کوئی مشکل نہیں رہا۔ عام اور سادہ زبان میں اس کا مطلب ’’دو سوتنوں کی ختم نہ ہونے والی لڑائی ہے۔‘‘ ’’آہڈا‘‘ ایسے لڑائی جھگڑے کو بھی کہا جاتا ہے کہ جب دونوں ’’ پارٹیاں‘‘ اپنا کام کاج ختم کرکے اور روز مرہ کے معمولات سے بالکل فارغ ہو کر محض وقت گزارنے‘ ہمسائیوں اور قرب و جوار کے دیگر لوگوں کو ’’مصروف‘‘ رکھنے کیلئے خم ٹھونک کر میدان میں اترتی ہیں اور پھر جب تک اپنے اپنے ’’اہداف‘‘ حاصل نہیں کر پاتیں‘ تھک ہار نہیں جاتیں یا ایک‘ دوسرے کو زچ نہیں کر دیتیں تب تک ’’آہڈا‘‘ جاری رکھتی ہیں کیونکہ ’’آہڈا‘‘ ایسی ’’بے ضرر‘‘ لڑائی ہے کہ اس میں کسی جسمانی نقصان کا خدشہ تو سرے سے ہی نہیں ہوتا البتہ دونوں ’’ پارٹیاں‘‘ کبھی کبھی آستین چڑھاتے ہوئے ایک دوسرے کی جانب بڑھنے کی کوشش ضرور کرتی ہیں۔ اگر ’’تماشائیوں‘‘ میں سے کوئی نہ روکے تو خود ہی ایک ‘ دوسرے کے قریب ہو کر ’’آنے ‘‘ والی جگہ پر واپس آ جاتی ہیں۔ یہی حالت ہماری حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کی ہے وہ ہر وقت ’’ سوکن آہڈا‘‘ لگائے رکھتی ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دراصل ’’سیاسی سوکنیں‘‘ ہیں جبکہ پارلیمنٹ‘ قانون اور آئین دونوں کے مفادات کو برابر تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اس لئے ’’سوکن آہڈا‘‘ (حکومت اور اپوزیشن) دونوں کو کوئی ضرر پہنچاتا ہے نہ اس سے کسی قسم کے جسمانی نقصان کااندیشہ ہوتا ہے بلکہ اس ’’آہڈے‘‘ میں دونوں پارٹیوں کے لیے تفریح طبع اور عوام کو بے وقوف بنانے کا سامان بھی بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے جس طرح دو ، تین روز قبل ہوا ، حکومت نے ’’قبضہ مافیا‘‘ کیخلاف کارروائی کی ، لاہور اورسیالکوٹ میں اربوں روپے کی اراضی واگزار کرنے کا دعویٰ کیا ، محل اور پلازے گرا دئیے گئے ، غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹی کو منہدم کیا گیا تو ’’سوکن آہڈا‘‘ لگ گیا۔ پہلے اپوزیشن رہنمائوں نے ’’باجماعت‘‘ پریس کانفرنس کی جس میں ’’طعنے مہنے ‘‘ کے سوا کچھ نہیں تھا ، جس طرح ’’سوتنیں‘‘ ایک دوسری کو ’’ماضی قریب‘‘ اور ’’ماضی بعید‘‘ کے طعنے دیتی ہیں بالکل اسی طرح ہمارے اپوزیشن رہنما کرتے ہیں، حکومتی عہدیداروں کو ’’نشانے‘‘ پر رکھتے ہیں ، ایک ، ڈیڑھ سال پرانا واقعہ دہرایا اور کپڑے جھاڑتے ہوئے چلتے بنے۔ ٹی وی چینلز کی سکرین سے اپوزیشن رہنمائوں کے ہٹتے ہی ، ’’سرکار‘‘ کے ترجمان اور عہدیدار جلوہ گر ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے بھی دلیل اور ثبوت کے ساتھ کچھ کہنے کی بجائے وہی ’’پرانی ٹیپ چلائی‘‘ اور ’’سوتن‘‘ جیسا روایتی انداز اپنایا کہ ’’دیکھیں ، اب قبضہ گروپوںکی چیخیں نکل رہی ہیں ، عوام کے پیسے پر عیاشی نہیں کرنے دیں گے‘‘ (حالانکہ حکومت اواپوزیشن دونوں ہی عوام کے پیسے پر عیاشی کر رہے ہیں) اس ’’آہڈے‘‘ میں ان ’’سوکنوں‘‘ کا کوئی نقصان نہیں ہوتا بلکہ اس دوران چپکے سے مقتدر حلقے ، متعلقہ محکمے عوام دشمن اقدامات کر گزرتے ہیں ، جس طرح پٹرول مسلسل پانچ بار مہنگا ہوا ، اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بھی عام آدمی کی پہنچ سے روز بروز دور ہوتی جا رہی ہیں ، داخلہ اور خارجہ پالیسیاں بے سمت ہیں ، اداروں کے معاملات اُلجھے ہوئے ہیں ، ملکی معیشت کی بہتری کے وعدے تکمیل کے منتظر ہیں ، قانون اپنی ’’روایتی ڈگر‘‘ پر ہے۔ ملک کو درپیش عالمی مسائل اور عوامی مشکلات سے (حکومت اوراپوزیشن سمیت)کسی کو کوئی دلچسپی نہیں۔ جوبائیڈن کے مسند اقتدار پر بیٹھنے کے بعد نئی امریکی پالیسیوں پر کسی کی نظرنہیں۔ امریکی ایوان صدر میں بھارتی لابی کا راج قائم ہو چکا ہے۔ ایسی صورتحال میں ہمیں بھی ’’سوکن آہڈا‘‘ سے اب باہر نکل آنا چاہئے۔کیونکہ…؎
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
ذرا دیکھ اس کو جوکچھ ہو رہا ہے ، ہونے والا ہے
دھرا کیا ہے بھلاعہد کہن کی داستانوں میں
یہ خاموشی کہاں تک‘ لذت فریاد پیدا کر
زمیں پر تو ہو اور تیری صدا ہو آسمانوں میں
نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ’’پاکستان‘‘ والو
تمہاری داستان بھی نہ ہو گی داستانوں میں
٭…٭…٭