ُپچاس ہزار امریکی ڈالر کے انعام کا سن کر میں نے کہا ’’کاش یہ انعام ہمیں مل جائے‘‘۔شاطرنے اپنے لیپ ٹاپ سے نگاہیں ہٹا کر ایک نظر میری طرف دیکھا اور کہا ’’مل سکتا ہے اگر تم چاہو تو‘‘۔میں سمجھ گیا کہ شاطر کے ذہن میں ضرور پھرکوئی اُلٹا سیدھا منصوبہ ہے۔ شاطر میرا یونیورسٹی دور کا بے تکلف دوست ہے جوبے حدذہین و فطین ہے ۔اسکی یہی ذہانت و فطانت ہے جس کی وجہ سے میں اسے پیار سے اسکے اصل نام عاطر کی بجائے ہمیشہ شاطر کہہ کر پکارتا ہوں ۔شاطر ایک لمبے عرصے سے میڈیا سے وابستہ ہے اور کئی ایک نجی ٹی وی چینلز میںبطور سکرپٹ رائٹر اور پروڈیوسر کام کر چکا ہے۔اسے یقین ہے کہ اپنے ہُنرمیں وہ کسی طرح بھی ہالی وڈ کے فلم ڈائریکٹرز اورسکرپٹ رائٹرز سے کم نہیںہے۔ بس وسائل کی کمی اور مناسب مواقع نہ ملنے کی وجہ سے وہ ابھی تک دنیا کے سامنے اپنے کمالات نہیں دکھا سکا۔کرونا کے باعث جب سے میڈیا شدید مالی بحران کا شکار ہوا ہے بے شمار دیگر میڈیا ورکرز کی طرح شاطر بھی بے روزگار ہوگیا ہے ۔ اپنی اس ناقدری پروہ ملکی میڈیا سے شدید بدظن ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اب وہ کسی چینل پر کام کرنے کی بجائے ذاتی پراجیکٹ پر کام کریگا اور بین الاقوامی سطح پراپنی صلاحیتوں کو منوا کر اپنی ناقدری کرنیوالوں کو اس کا منہ توڑ جواب دیگا۔ آجکل وہ دوستوں سے اس وعدے پر مالی تعاون کا خواہاں رہتا ہے کہ جب اسکے دن بدلیں گے تو وہ ان کی پائی پائی منافع سمیت ادا کر دیگا۔اس حوالے سے باقی دوست تو اسے کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر ٹالتے آئے ہیں لیکن میں اب تک دوبار اسکی دوستی کی قیمت بھرچکا ہوں۔ دونوں بار اس نے شارٹ فلموں کے بین الاقوامی مقابلے میں بھیجنے کیلئے شارٹ فلم پراٹھنے والے اخراجات کی مد میں مجھ سے پیسے لئے جو دونوں بار ہی ضائع گئے اس لئے کہ ججز نے اس کی فلم کو کسی انعام کے قابل نہیں سمجھا۔اسکے اس جملے ’’اگر تم چاہو تو‘‘ سے مجھے سمجھ آگئی کہ اب یہ دوبارہ کسی ایسے فلاپ منصوبے کیلئے مجھ سے پیسوں کا تقاضا کریگا۔میں نے ایک پل کیلئے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا جس پر یہ مجھے کہنے لگا’’ میرے دوست مجھے پورا یقین ہے کہ اس بار میرا تیر سو فیصد نشانے پر لگے گا‘‘۔میں نے طنزیہ انداز سے کہا ’’جس طرح پہلے لگتے رہے ہیں‘‘۔میری اس بات پر وہ منت پر اتر آیا اور کہنے لگا’’یار پہلے ایک بار میری بات دھیان سے سن تو لو‘‘۔میں نے کہا ’’ اچھا جی سنائیں‘‘۔یہ سن کر وہ اپنا لیپ ٹاپ اٹھا کر میرے پاس آگیا اور مجھے لیپ ٹاپ کی سکرین دکھا کر کہنے لگا ’’یہ دیکھو ایک بہت بڑی انٹرنیشنل تنظیم نے بین الاقوامی مقابلے کیلئے شارٹ فلم مانگی ہے جس کا پہلا انعام پچاس ہزار امریکی ڈالر ہے ‘‘۔میں نے بے زاری کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’اور اس سے پہلے بھی تم مجھے اسی طرح کے سنہری خواب دکھا کر میرے خاصے پیسے برباد کروا چکے ہو ‘‘۔وہ کہنے لگا’’ یار بڑے افسوس کی بات ہے میں تمہارے ساتھ ڈالروں کی بات کر رہا ہوں اور تم پاکستانی کرنسی میں اپنے معمولی سے نقصان کا رونا رو رہے ہو‘‘۔میں نے کہا’’ بھائی تمہارے لئے یہ نقصان معمولی ہوگا مگر میں دن رات ایک کر کے اپنے بیوی بچوں کی روٹی روزی کیلئے یہ پیسے اکٹھے کرتا ہوں اب تمہاری باتوں میں آکر میں اپنا مزید نقصان نہیں سکتا‘‘۔اس نے گلہ کرنے کے انداز میں میں کہا ’’ یار بڑے دکھ کی بات ہے اتنے برسوں کی یاری کے بعد بھی تم مجھے خود سے الگ سمجھتے ہو‘‘۔میں نے کہا ’’دیکھو شاطر تم ہر بار مجھے اسی طرح جذباتی بلیک میل کرکے اپنا الو سیدھا کرلیتے ہو مگر مجھے اپنی فیملی کی ضروریات بھی پوری کرنی ہوتی ہیں نہ بابا نہ اب میں تمہارے کسی جھانسے میں نہیں آئوں گا‘‘۔شاطر میری اس بات پر ہنس پڑا اور کہنے لگا’’یار! زبردستی تھوڑی ہے بس ایک بار میری بات سن لو‘‘۔میں نے جان چھڑانے کیلئے کہا ’’ہاں سن رہا ہوں‘‘۔شاطر نے انتہائی پیار سے میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا اور اسے سہلاتے ہوئے کہنے لگا ’’ اس بار جو شارٹ فلموںکا مقابلہ ہورہا ہے اس میں شرکت کیلئے میں میں نے جو زبردست کہانی سوچی ہے تم سنو گے تو پھڑک اٹھو گے‘‘۔میں نے اسے چھیڑنے والے انداز میں کہا ’’اچھا جی! ایک اور زبردست کہانی‘‘۔اس نے میری طنز کو جان بوجھ کر نظر انداز کرتے ہوئے کہا’اس بار فلم کی کہانی میں،میں پاکستان کے کسی پسماندہ علاقے کی ایک کم عمر لڑکی کی دکھ درد اور مصیبتوں بھری زندگی کی کہانی بتائوں گا جسے ایک ادھیڑ عمر ملا اغوا کر کے اس سے زبردستی شادی کرلیتا ہے ۔لڑکی کے غریب ماں باپ اپنی بیٹی کی بازیابی کے لئے در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں لیکن انہیں کہیں انصاف نہیں ملتا‘‘۔میں نے کہا’’تجھے پتا ہے جب تمہاری یہ شارٹ فلم انٹرنیشنل مقابلے میں پیش کی جائیگی تو اس سے ہماری بدنامی ہوگی‘‘۔کہنے لگا’’یہ بات تو ہے لیکن پروفیشنل ازم کا تقاضا یہ ہے کہ حقیقت خواہ کتنی ہی کڑوی کیوں نہ ہو اسے کسی مصلحت کے بغیر دنیا کے سامنے لایا جائے اور حقیقت یہی ہے کہ آج کی مہذب دنیا میں بھی ہمارے جیسے پسماندہ ملکوں میں ایسی اندھیر نگری مچی ہوئی ہے‘‘۔میں نے کہا ’’ اور یہ جو تمہارے نام نہاد مہذب ملکوں میں بے گناہ قیدعافیہ صدیقی جیسی مظلوم اورلاچار کڑوی حقیقتیں ہیں ان کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے‘‘۔اس پر اس نے اپنے چہرے پر ایک شیطانی ہنسی لاتے ہوئے کہا ’’ میرے پیارے اور بھولے بھالے دوست تمہاری بات سو فیصد درست ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ مارکیٹ میں اس طرح کی حقیقتوں کی قیمت صفر ہے مارکیٹ میں صرف وہ چیز بکتی ہے جس کی ڈیمانڈ ہے اور جس کہانی کی میں بات کررہا ہوں اس وقت اسی کی مارکیٹ ویلیو ہے‘‘۔