نئے سال کے پہلے مہینے دو علمی اورادبی شخصیات عارضی سفر کی تکمیل کر گئے۔ آغا امیر حسین اور طفیل اختر دادا۔ دونوں عمر کے لحاظ سے مجھ سے سینئر تھے۔ اس کے باوصف ان سے دوستی اور بے تکلفی رہی۔ آغا امیر حسین نے میری متعدد کتابیں اپنے ادارہ ’’کلاسیک‘‘ کے زیر اہتمام شائع کیں۔ پہلی کتاب جو انہوں نے شائع کی ’’میرا بچپن‘‘ تھی۔ جس میںنامور شخصیات کے بچپن کے حوالے سے انٹرویوز تھے۔ اس کتاب میں آغا امیر حسین کا انٹرویو بھی شامل تھا۔میری آخری کتاب جو 2018ء میں ان کے ادارے نے شائع کی، وہ ’’یادیں‘‘ تھی۔ یہ ’’نوائے وقت‘‘ میں شائع میرے کالموں کا انتخاب تھا۔ آغا صاحب پبلشر ہونے کے ساتھ ساتھ رائٹر، ایڈیٹر، مرتب، کالم نگار، سماجی شخصیت اور دانشور تھے۔ آپ کا پورا نام سید آغا امیر حسین نقوی ہے۔ بڑے اشاعتی ادارے کے مالک ہونے کے ساتھ پیپلز ٹریڈرز سیل پنجا ب کے کنونیر تھے۔ ان کی پیدائش دہلی میں 1932ء کو ہوئی۔ یوں انہوں نے 88 سال کی بھرپور عمر بسر کی۔ گراؤنڈ فلور پر شوروم ہی میں وہ بیٹھا کرتے تھے۔ چند برس قبل انہوں نے دوسری منزل پر اپنا آفس بنالیا۔ رسالہ ’’سپوتنک‘‘ اور دیگر امور وہ اسی کمرے میں انجام دیتے۔ گراؤنڈ فلور پر شوروم انہوں نے اپنے صاحبزادے سید راشد حسین آغا کے سپرد کر دیا۔ کتابوں کے ساتھ ساتھ سٹیشنری اور بیکری کا سامان بھی اس نے رکھ لیا۔ آغا امیر حسین سے جب بھی ملاقات ہوتی۔ وقت کا پتا ہی نہ چلتا۔ اپنی یادداشتیں شیئر کرتے۔ اس طرح میرے علم میں اضافہ ہوتا۔ وہ بتایا کرتے کہ کتابی دنیا میں میری آمد حادثہ نہیں ہے۔ میرے والد صاحب کو کتابیں پڑھنے اور انھیں سلیقے سے رکھنے کا بہت شوق تھا۔ ان کا کمرہ کتابوں سے بھرا ہوتا۔ ان میں بہت سی کتابیں نایاب تھیں۔ میں زیادہ وقت اسی کمرے میں گزارتا۔ میں نے پانچویں جماعت ہی میں فیصلہ کر لیا تھا کہ اگر کوئی کام کروں گا تو کتابوں کا کروں گا۔ قیام پاکستان کے وقت آغا صاحب آٹھویں جماعت میں تھے۔ ان کے والد ریلوے میل سروس میں ملازم تھے۔ بسلسلہ ملازمت وہ اکثر لاہور آتے رہتے۔ 11۔ اگست 1947ء کو وہ اپنے والد کے ساتھ لاہور کی سیر کے لیے آئے۔ اس کے ایک روز بعد ہی لاہور میں ہنگامے اور فسادات بھڑک اٹھے اور پھر وہ واپس دہلی نہ جا سکے۔ ان کے خاندان کے دیگر افراد کئی مہینوں بعد لاہور آئے۔ گیارہ برس کی عمر میں گزر بسر کے لیے انہوں نے اخبار بیچے۔ ڈیڑھ برس یہ سلسلہ جاری رہا۔ ان کا اصل رجحان کتابوںکی طرف تھا۔ اس لیے انہوں نے ابتدا میں مکتبہ جدید کے چودھری بشیر کے ہاں ملازمت کرلی۔ انہوں نے اتنی محنت اور لگن سے کام کیا کہ 1960ء میں مال روڈ پر ’’کلاسیک‘‘ کے نام سے اپنا پبلشنگ ادارہ قائم کر لیا۔ آج یہ ادارہ پبلشنگ کے شعبے میں بلند مقام کا حامل ہے۔ اس کے تحت انہوں نے ہزاروں کتابیں شائع کیں۔ماہنامہ سپوتنک کا اجرا آغا صاحب نے 1991ء میں کیا، جو باقاعدگی سے شائع ہو رہا ہے۔ آغا صاحب متعدد کتابوں کے مصنف اور مرتب ہیں۔
طفیل اختر کا زیادہ حوالہ فلمی صحافت سے رہا۔ یہ دوستوں میں ’’طفیل اختر دادا‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ ہندی میں ’’دادا‘‘ بڑے بھائی کو کہتے ہیں۔ ان کا اصل نام محمد طفیل ہے۔ اپنی بہن ’’اختری‘‘ سے انہیں بے حد پیار تھا۔ اس مناسبت سے انہوں نے اپنا نام ’’طفیل اختر‘‘ رکھ لیا۔ طفیل اختر مرنجاں مرنج اور دھیمے مزاج کے آدمی تھے۔ ان کی اچانک وفات کا سن کر بہت صدمہ ہوا۔ مرحوم کے صاحبزادے جاوید اختر نے مجھے بتایا کہ وہ بھلے چنگے تھے۔ دو گھنٹے کے اندر ہی وہ ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے۔ ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ طفیل اختر کی پیدائش بھی انڈیا کی ہے۔ تقریباََ 80 سال کی عمر گزار کر وہ ہم سے رخصت ہوئے۔ انہوں نے زیادہ تر فلمی موضوعات پر 25 سے زائد کتابیںتصنیف اور مرتب کیں۔ مختلف فلمی جرائد میں ان کے مضامین شائع ہوتے رہے۔ طفیل اختر نے سٹیج ڈرامے بھی لکھے۔ ریڈیو اور ٹی وی کے لیے لکھا اور متعدد پروگرام کیے۔ ’’مسکراہٹ‘‘ رسالہ 25 برس تک شائع کرتے رہے جو چار سال قبل بند ہو گیا۔ آرٹ پیپر پر شائع ہونے والا یہ معیاری علمی اور فلمی جریدہ تھا۔ میں اپنا رسالہ ’’سانجھاں‘‘ جب بھی انھیں ارسال کرتا، وہ خط کے ذریعے وصولی کی اطلاع کرتے۔ ان کے خطوط ادبی چاشنی لیے ہوتے جو میں اپنے شمارے میں شائع کر دیتا۔ یہ لیٹرز اردو کے علاوہ پنجابی زبان میں بھی لکھے جاتے۔ گزشتہ برس میں نے یہ جریدہ بند کر دیا اس طرح میں طفیل اختر کے خطوط سے محروم ہو گیا۔ ان کا آخری خط اکتوبر 2019ء میں شائع ہوا۔ اس میں افتخار مجاز مرحوم کا تذکرہ تھا۔ افتخار مجاز کی وفات کے بعد میں نے ایک تصویر شائع کی تھی۔ جس میں افتخار مجاز کے ہمراہ طفیل اختر، سید فراست بخاری اور راقم کھڑے تھے۔ انہوں نے لکھا ’’سچ مچ افتخار مجاز پیار سے بھرپور ایک دوست نما بھائی تھا۔ گلہ یا شکایت اس کی عادت نہ تھی، نہ میرا چلن۔ ہم دونوں معاملات کو کھلے دل سے لیتے تھے۔ ’’صداقت‘‘ سے پی ٹی وی کی ملازمت اور بالآخر اس سے ریٹائرمنٹ تک گاڑی متواتر ایک ڈھب سے چلتی رہی‘‘