اہلِ کشمیر پرنامہربان رُتوںکااحوال(۲)

اہلِ کشمیر پر نامہربان رُتوں کا سلسلہ تھمنے میں نہیں آرہا ۔ تاریخ میں بارہا بڑے پیمانے پرکشمیریوں کی نسل کشی کر کے ان کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی سعیٔ لا حاصل کی جاچکی ہے۔اس جہانِ خراب آباد میں تشنہ آرزووں سے لہو ٹپکتا ہے لیکن اہلِ کشمیر کے لہو سے ان کی امنگیں رِستی ہیں۔ کشمیر کی تاریخ پڑھتے ہوئے یہ احساس پختہ تر ہوجاتا ہے کہ باقی دنیا پر اگر بادل پانی برساتے ہیں تو یہاں لہو کی برسات ہوتی ہے۔ یہی لہو چنار کی رگ ِ جاں میں زندگی کی رمق پیدا کرتا ہے۔ 
عجب بہار دکھائی لہو کے چھینٹوں نے
خزاں کا رنگ بھی بہار جیسا تھا
جبرناروا کی اسی مشق مسلسل کے نتیجے میں کشمیر میں آزادی کی تحریکیں ابھرتی رہی ہیں۔زندگی کس کو عزیز نہیں ہوتی؟ لیکن جب کسی کے پورے قبیلے کا سانس روک لیا جائے تووہ مجبوراََ بغاوت پر اترآتا ہے۔کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو چھین کر ہندوستانی حکومت کا یہ خیال تھا کہ تحریک آزادی وقت کے دھارے میں بہہ جائے گی اور سرفروشانِ بلاکش کی آتشِ سوزاں سرد ہو جائے گی ۔ 1980ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں حریت پسندوں کے سرخیل مقبول بٹ کو جب تہاڑجیل میں تختۂ دار پہ لٹکایاگیاتوان کی شہادت سے تحریک مزاحمت کاآغازہوا جس کے نتیجے میں اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہید ہوچکے ہیں۔ہزاروں جبری گم شدگیاں ہوچکی ہیں۔ان گنت خواتین کی عصمتیں برباد کی جاچکی ہیں۔ ہزاروں بچوں کی زندگیوں کا چراغ گل کیا جاچکا ہے۔دس سال قبل شہادت گاہِ اُلفت میں قدم رکھنے والے ساتویں جماعت کے ایک طالب علم وامق فارو ق کی یادیں آج بھی تازہ ہیں ۔اس کے والد فاروق احمد وانی اپنے بیٹے کی یاد میں نوحہ کناں ہیں۔وامق کی شہادت 31جنوری 2010ء کو ہوئی۔ جب بھی جنوری کا مہینہ آتاہے تو رعناواری کی فضائیں سوگوارہوجاتی ہیں۔ ہرگزرتابرس شہید کے والد کے چہرے پر نئی جھریوں کا اضافہ کرجاتاہے۔ تیرہ سالہ وامق کی آخری آرام گاہ پر یہ معصومانہ سطور کندہ ہیں:
تمنا تھی ابھی جینے کی مگر کیا کروں ظالموں نے سُلادیا
نہ رونا میری قبر پر خدانے جامِ شہادت پلادیا !
یہ شعر اگر چہ بے وزن ہے لیکن اس کا وزن محبوب مجازی کے ہجرمیں نالۂ نیم شبی پر مبنی کئی دواوین پر بھاری ہے۔
حالیہ تاریخ میں بھارتی درندگی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والے عظیم مجاہد کمانڈر برہان وانی کی شہادت نے تحریکِ آزادیٔ کشمیر کو اک ولولۂ تازہ عطا کردیا۔ یہ عزمِ بلند ہمت بھارت کے ستر سالہ ظلم و جبر کے باوجود تازہ دم ہوگیا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ برہان وانی جیسے وفاشعاروں کے سوزِ نہاں نے روحِ آزادی کو ترو تازہ کر دیا اور تحریکِ آزادیٔ کشمیر میں ایک نیا جوش و آہنگ پیدا ہوگیا ۔سچ یہ ہے کہ بھارت کے لیے برہان وانی کی شہادت اس کی ظاہری حیات سے زیادہ دردسری کا سبب بنی ہے۔ حالات کے بدلتے ہوئے تیور دیکھ کربھارتی افواج نے وادی میں اپنی کارروائیاں تیز کردیں ۔ بنیادی انسانی حقوق تو پہلے بھی نہ تھے لیکن اب بیگناہ شہریوں کے قتلِ عام کی وارداتوں میں کئی گنا اضافہ ہوگیاہے۔ ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق برہان وانی کی شہادت کے فوری بعد ہونے والے عوامی مظاہروں میں 120عام شہریوں کو شہید کردیاگیا۔ جب بھی شہیدبرہان وانی کی برسی کا موقع آتا ہے ، بھارتی فوج کو وادی میں سخت کرفیو نافذکرنا پڑتا ہے ۔
تحریک آزادیٔ کشمیر کی کوکھ میں ایثاروقربانی کی ایسی لازوال داستانیں ہیں کہ انسانی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔بھارتی فوجی عوام کو احتجاج سے روکنے کے لیے پیلٹ گن کا کھلے عام استعمال کرتے ہیں۔ یہ پیلٹ گن کیا ہے؟ بنیادی طور پیلٹ گن جانوروں کا شکار کرنے کے لیے بنی ہے کیوں کہ اس سے چھرے چاروں سمت بکھر جاتے ہیں اور ہدف کو فوری نشانہ بنا لیتے ہیں ۔ وقت کی ستم ظریفی دکھیے کہ کشمیر میں یہ گن بے گناہ انسانوں پر استعما ل ہوتی ہے۔ یہ نہ صرف مظاہرین کو نشانہ بناتی ہے بلکہ آس پاس کھڑے لوگوں یا راہگیروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ کتنے ہی معصوم بچے، موت کی سرحدوں کو چھوتے بوڑھے اور پھولوں کی سیج کی منتظر دوشیزائیں ان چھروں کی زد میں آکر ہمیشہ کے لیے بینائی سے محروم ہوچکی ہیں۔ پیلٹ گن سے متأثرہ افراد جاں بحق تو نہیں ہوتے لیکن ان کی زندگی موت سے بدترہوجاتی ہے۔ جابجا چلتی پھرتی زندہ لاشیں موت کی آرزو میں ماتم کناں نظر آتی ہیں۔
اگست 2019ء میں مقبوضہ کشمیر کواہلِ کشمیر کی مرضی کے برعکس اور تمام عالمی قوانین کے خلاف مودی سرکار نے دھونس دھاندلی اور غنڈہ گردی کے زور پر ہندوستان میں ضم کرلیاجو نہ صرف وادی میں محبوس لاکھوں کشمیریوں کے بنیادی حق پر شب خون تھا بلکہ عالمی برادری کے منہ پر ایک طمانچہ بھی تھا۔ نوے فیصد کشمیریوں کی مرضی اور رائے کے برعکس ان پرقائم بھارتی تسلط کا کوئی بھی آئینی یا اخلاقی جواز نہیں ۔ اس ناجائز قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے شروع دن سے بھارت نے بہیمانہ تشددکی پالیسی اپنائی ہے۔ تقسیم ہند کے بعد سے بھارت عالمی قوانین اور بنیادی انسانی حقوق کے تمام معاہدوں کو یکسر نظر انداز کرتا آرہاہے۔کینیڈا سے تعلق رکھنے والے سلامتی کونسل کے صدرجنرل مکنوٹن نے3 فروری 1950ء کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنی حتمی رپورٹ پیش کی جس میں انھوں نے تجویز دی کہ بھارت اور پاکستان فوری طور پر اپنی فوجیں کشمیر سے واپس بلا ئیں ۔ انھوں نے تنازعے میں پاکستان اور بھارت کو ’مساوی پارٹنر ‘ قر ار دیا ۔ بھارت کے لیے یہ تجویز ناقابل قبول اس لیے تھی کہ وہ خود کو کشمیر کی قسمت کاتنہاسکندر سمجھتا تھا۔
سرد جنگ کے تاریخ نویس رابرٹ مک ہان نے لکھا ہے کہ’’امریکی اہلکاروں نے محسوس کیا ہے کہ قانونی و تکنیکی بہانوں سے بھارت ہمیشہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مصالحتی کوششوں کی مخالفت کرتا رہاہے۔اس کا واحد مقصد استصواب رائے سے بچنا ہے۔‘‘ تاریخی حقائق اور حالات حاضرہ کی روشنی میں ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ بھارت کشمیر تو چاہتا ہے لیکن کشمیریوں سے شدیدنفرت کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ گزشتہ پچھتر سالوں سے ظلم کا ہر حربہ آزماتا چلا آرہاہے اور بیسیوں مرتبہ کشمیریوں کا قتلِ عام کرچکا ہے۔ عالمی برادی کی خاموشی کسی المیہ سے کم نہیں ۔ افسوس ہوتا ہے کہ کتوں اور بلیوں کے حقوق کے داعی مقبوضہ کشمیر میں انسانیت کی تذلیل ،مسلمانوں کی نسل کشی اور بھارتی افواج کی درندگی پر مہر بہ لب ہیں۔ اس دگرگوں صورتحال میں کشمیر کاز کے لیے کام کرنے والی تمام تحریکوں ، تنظیموں اور اداروں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کشمیرکی آزادی کا مقدمہ ہمیں خود لڑنا ہے۔ ہمیں کسی اور کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔کم از کم کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم تمام تر دھڑے بندیوں ، ذاتیات اور سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکر مسئلۂ کشمیر کو اپنی ترجیح اول بنائیں اور ایک دیرپاحکمت عملی ترتیب دیں جو بدقسمتی سے آج تک نہیں ہوسکا۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن