گھر میں نہیں دانے ماں چلی بھنانے

ویسے تو یہ پاکستان کی تاریخ کا حْسن اور کمال رہا ہے کہ پہلے ہی دن جب بھی کوئی سیاسی حکومت بنتی ہے تو اسی دن سے حکومت مخالف تمام سیاسی پارٹیاں اس حکومت کی پالیسیوں پر کسی مثبت بحث یا تنقید کی بجائے اسے غیر مستحکم کرنے کے چکروں میں پڑ جاتی ہیں یقین نہ آئے تو نوے کی پوری دہائی پر ایک نظر ڈال لیں جس کا ایک ایک دن اس حقیقت سے عبارت نظر آئے گا۔
 بات صرف اس دہائی تک محدود نظر نہیں آتی۔ زمینی اور تاریخی حقائق یہ بھی بتلاتے ہیں کہ 1999ء میں بْری طرح پٹنے کے دس سال بعد یہ سیاسی پارٹیاں 2008ء میں ایک دفعہ پھر جب سیاسی دائرے میں واپس آتی ہیں تو اْنھوں نے ماضی کی تاریخ سے کوئی سبق سیکھنے کی بجائے وہی پرانی ڈگر اپنائی، چاہے وہ افتخار چوہدری بحالی کی آڑ میں لانگ مارچ تھا یا میمو گیٹ سکینڈل یا پھر سوئس اکاؤنٹس کے حوالے سے عدالتی معاملات لیکن یہاں قابل غور اور قابل ذکر ایک اور بات ہے کہ ان تمام باتوں کے برعکس جب 2014ء والے‘‘عمرانی دھرنے ’’ ( ان ذومعنی الفاظ کے استعمال سے راقم جو بات کہنا چاہتا ہے سمجھنے والے یقیناً اسے سمجھ جائینگے) کی بات آئی تو ماضی کی تمام روایات کے برعکس اس دفعہ پیپلز پارٹی اور حزب اختلاف کی دوسری جماعتیں نواز شریف کا ہاتھ تھامیں نظر آئیں اور بظاہر ڈانواں ڈول اور لڑکھڑاتی حکومت کی بیساکھیاں بن گئیں جس سے عام آدمی کے دل میں یہ موہوم سی اْمید پیدا ہوئی کہ شاید اس موڑ سے ملک میں اب سے سیاسی معاملات کو سیاسی طریقے سے حل کر نے کی ایک ریت چل پڑے جس کا عملی مظاہرہ میرے جیسے غیر جانبدار لوگوں کے نزدیک ایک دفعہ پھر اس وقت دیکھنے کو ملا جب 2018ء کے الیکشن کے فوراً بعد مولانا فضل الرحمان کی طرف سے حزب اختلاف کے نومنتخب ممبران کی طرف سے اسمبلیوں میں حلف نہ لینے کی تجویز کو نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے یکسر مسترد کر دیا اور فیصلہ کیا کہ ہر قسم کے تحفظات حتی کہ لفظ ‘‘سلیکٹڈ ‘‘ کی ٹرمنالوجی کے استعمال کے باوجود نومنتخب حکومت کو فری ہینڈ دیا جائے۔
 یہاں سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس دفعہ ایسا کیوں ہوا۔ فکری اساس کے مالک لوگوں کے سامنے اسکی دو وجوہات سامنے آتی ہیں۔ پہلی وجہ جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ پہلے دن سے فیصلہ سازوں نے حزب اختلاف کی سیاسی پارٹیوں خاص کر ان میں سے دو بڑی پارٹیوں کی مرکزی قیادت پر احتساب کی آڑ میں ایک ایسا آرٹلری اٹیک کیا کہ حکومت کیخلاف صف بندی تو دور کی بات انہیں پہلے دن سے ہی اپنی اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ دوئم امکانی وجہ یہ بھی تھی کہ حزب اختلاف کو یہ اْمید نہیں بلکہ پورا یقین تھا کہ نئی قائم ہونیوالی حکومت کے پاس اتنی اہلیت اور قابلیت ہی نہیں کہ وہ اپنے ماضی میں کیے گئے وعدوں اور دعاوں کی لاج رکھنا تو درکنار پچھلے ادوار کا وہ لولا لنگڑا ردھم ہی برقرار رکھ سکے جسے وہ تنقید کا نشانہ بنا حکومت میں آئے ہیں۔
 موجودہ حکومت کے اڑھائی سال اور اس دور میں ہونے والے واقعات اس بات کے قوی عکاس ہیں کہ صاحب نظر اور نباض لوگوں کی یہ دونوں توجیہات اپنے آپ میں کافی وزن رکھتی ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب دو سال کا وقت گزر گیا تو پھر اگلے دو اڑھائی سال حزب اختلاف نے صبر کیوں نہیں کیا اور وہ کیوں اس ڈگر پر چل پڑے کہ انہیں پی ڈی ایم کے نام سے ایک اتحاد بنا کر حکومت مخالف تحریک شروع کر نی پڑی۔
 راقم ان حقائق سے پردہ اْٹھانا نہیں چاہتا کہ وہ کیا عوامل تھے جن کے تحت میاں شہباز شریف کو عمران خان کی شدید مخالفت کے باوجود پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی ملی اور پھر لگاتار جب تک میاں شہباز شریف ضمانت پر رہا نہ ہوئے ہر روز اسکے اجلاس منعقد ہوئے راقم اس تفصیل میں نہیں جائیگا کہ وہ کیا کونسے محرکات اور کونسے مراحل تھے جن کو طے کرنے کے بعد ایک طرف میاں نواز شریف لندن روانہ ہوئے اور دوسری طرف مریم نواز شریف کو صرف اس وجہ سے ضمانت ملی کہ وہ اپنے بیمار باپ کی تیمارداری کر سکے اور وہ کیا محرکات ہیں جو اسکی دوبارہ گرفتاری کو روکے ہوئے ہیں۔ راقم اس بات کہ کھوج لگانے کی زحمت بھی نہیں کرے گا کہ لندن میں وہ کن لوگوں کی ملاقات تھی جس میں یہ تجویز سامنے آئی تھی کہ کسی سمجھوتے کے نتیجے میں اقتدار کا ہْما لاہور سے منتخب ایک رْکن جو سابق اسپیکر اسمبلی بھی رہ چکا ہے اسکے سر پر بٹھا دیا جائے۔
 راقم اس ضد کا بھی تذکرہ کرنا نہیں چاہے گا جو ان مذاکرات کی ناکامی کا باعث بنی۔ مجھے تو اس بات سے بھی غرض نہیں کہ جس رکن اسمبلی کا راقم نے سرسری ذکر کیا ہے اس نے اسمبلی فلور پر وہ بات کس کے اکسانے اور کہنے پر کی جس کا پورے افسانے میں ذکر ہی نہیں تھا۔ راقم اس بات کا ذکر بھی چھیڑنا نہیں چاہتا جب ایک سابق چیر مین سینٹ اور سابق نگران وزیراعظم کا نام بھی کچھ حلقوں میں کسی خاص ذمہ داری کے حوالے سے مشہور ہوا۔ 
راقم تو اس افسانوی داستان میں جہازی شہرت کے مالک کی لندن میں ارینج کسی بھی ملاقات کا ذکر نہیں کریگا اور اس پلاننگ کا کوئی ذکر بھی نہیں کرنا چاہے گا جو اس سینٹ الیکشن میں نظرآنے کے قوی امکانات ہیں۔ یہ صرف چند واقعات ہیں ابھی ان اڑھائی سالوں کی داستانوں پر مشتمل ایک کتاب ہے جسکے کئی ابواب ابھی تشنگی لب رکھتے ہیں لہذا مجھ جیسے جو پی ڈی ایم کے جلسوں پر تاریخیں دینے اور آر پار کی اْمیدیں لگائے بیٹھے ہیں ان سے ایک ہی درخواست ہے کہ بھائی ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ جگہ کی بندش کی وجہ سے مختصراً اتنا عرض ہے کہ سیاسی پنڈتوں کے نزدیک حزب اختلاف کی پچھلے چھ مہینوں کی ایکسائز میں جو بینفشری نظر آ رہا ہے وہ پیپلز پارٹی ہے جو ایک طرف پی ڈی ایم کے کراچی پشاور ملتان اور گلگت کے جلسوں سے فیصلہ سازوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گئی ہے کہ وہ کیسے سٹریٹ پاور کو مینج کر سکتی ہے شائد یہی وجہ ہے کہ ہماری تیسری آنکھ ملتان سے کسی کو چیرمین سینٹ کی کرسی پر براجمان دیکھ رہی ہے۔ انکے بعد اس ایکسائز کا فی الوقت اگر کوئی بینفشری نظرآتا ہے تو تو وہ موجودہ وزیر داخلہ ہے جسے صرف لانے کی یہ وجہ نظر آ رہی ہے کہ وہ مذہبی حلقوں میں اچھا جوڑ توڑ کر سکتا ہے اور کر رہا ہے جسکے جھٹکے شائد مولانا فضل الرحمان محسوس کر رہے ہوں فی الوقت پی ڈی ایم کی تحریک پر کالم اس لائن پر بند کرتا ہوں ‘‘ گھر میں نہیں دانے اماں چلی بھنانے ’’ باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔
٭…٭…٭

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ`

ای پیپر دی نیشن