یوم یکجہتی کشمیر کی شروعات

Feb 03, 2021

اسد اللہ غالب

 ہم کئی برسوں سے اور کئی حکومتوں کی تبدیلیوں کے باوجود ہر سال پانچ فروری کو کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں مگر نئی نسل نہیں جانتی کہ اس اچھی قومی رسم کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی یہ نعرہ انیس سو نوے میں قاضی حسین احمد نے بلند کیا تھا ۔انہیں امیر العظیم جیسے نشرو اشاعت کے ماہر کی خدمات میسر تھیں ،آئی جی آئی کا ایک مضبوط ترین پلیٹ فارم بھی ان کے ساتھ اس نعرے میں شامل ہوا اور پھر وفاق میں محترمہ بے نظیر کی حکومت کو بھی یہ نعرہ اپنانا پڑا تو یوں پانچ فروری نوے کو پوری قوم نے مل کر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیا ہمیں آج قاضی حسین احمد کے اس کردار کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔
قاضی حسین احمد نے پاکستانی قوم سے اپیل کی کہ 5فروری کو کشمیر یوں کے ساتھ اظہاریکجہتی کے دن کے طور پرمنا یا جائے اور اس دن ملک بھر میں جلسے جلوس،ریلیاں اور سیمینار ز منعقد کرکے مظلوم کشمیری بھائیوں کو پیغام دیا جائے کہ پاکستانی قوم شانہ بشانہ ان کے ساتھ کھڑی ہے اور ہم کسی صورت بھی انہیں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ آج نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں 5فروری کو کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے، دن اب قومی و بین الاقوامی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔دنیا بھر میں جہاں جہاں پاکستانی اور کشمیری موجود ہیں وہ سڑکوں پر نکلتے ہیں،کشمیرپر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف احتجاج کرتے ہیں اور اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں کو کشمیر میں ہونے والے ظلم کو رکوانے اور کشمیریوں کو حق خودارادیت دلانے کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔پورے عالم اسلام میں بھی یہ دن اسی جوش و جذبہ کے ساتھ منایا جاتا ہے جس طرح کشمیری اور پاکستا نی مناتے ہیں۔
 5 فروری کو یومِ یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کا آغاز 1990 ء میں ہوا۔ قاضی حسین احمد صاحب نے جنوری 1990ء کے اوائل میں لاہور میں ایک پریس کانفرنس جس میںقوم سے یہ دن منانے کی اپیل کی گئی،پریس کانفرنس میں دیگر رہنمائوں کے ساتھ میں جماعت کے موجودہ سیکرٹری جنرل امیر العظیم بھی موجود تھے۔ یہ بات اپنے بیگانے سب تسلیم کرتے ہیں کہ قاضی صاحب کی حیثیت موجودہ تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے آغاز ہی سے اس کے ایک بہت بڑے محسن اور پشتیبان کی رہی ہے اور انہوں نے اس تحریک کی کامیابی کیلئے ذاتی طور پر اور جماعتی حیثیت سے جو گرانقدر خدمات سرانجام دی ہیں، اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی اس اپیل کا بھرپور خیر مقدم کیا گیا۔ اس وقت چونکہ پنجاب میں اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت تھی اورمیاں محمد نواز شریف وزیرِ اعلیٰ تھے۔ لہٰذا انہوں نے قاضی صاحب کی اپیل سے اتفاق کرتے ہوئے 5 فروری 1990 ء کو پنجاب بھر میں سرکاری طور پر یومِ یکجہتی کشمیر منانے کا اعلان کر دیا۔وفاق میں اس وقت بینظیر بھٹو مرحومہ کی حکومت تھی، انہیں بھی اس دن کو سرکاری سطح پر یومِ یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کا اعلان کرنا پڑا۔ اس کے ساتھ ہی قاضی صاحب نے مختلف ممالک کی اسلامی تحریکوں سے بھی یہ دن یومِ یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کی اپیل کی۔ چنانچہ اس کے بعد سے یہ دن نہ صرف یہ کہ سرکاری طور پر اہتمام کے ساتھ پورے ملک میں منایا جاتا ہے بلکہ دنیا کے اکثر ملکوں میں وہاں کی اسلامی تحریکوں کی طرف سے بھی اسے یومِ یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن نہ صرف پورے ملک بلکہ پورے عالم ِ اسلام میں تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے جلسوں، جلوسوں، کانفرنسوں اور سیمیناروں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔لاہور کے مال روڈ پر سینکڑوں، ہزاروں نوجوانوں کی ریلیاں ہاتھوں میں کشمیر کے پرچم اٹھائے مارچ کرتی نظرآتی ہیں۔کراچی میں جماعت اسلامی کے ساتھ ایم کیو ایم کے نوجوان بھی شامل ہوتے ہیں،جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم نظریاتی طور پر ایک دوسرے کی سخت مخالف ہونے کے باوجود کشمیر کے مسئلہ پر متحد ہیں۔اس دن اخبارات و رسائل خصوصی ایڈیشن شائع کرتے ہیں۔ اور تجدید ِ عہد کیا جاتاہے کہ تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے حوالے سے ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی جائے گی۔
یوں تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کایہ اہتمام 5فروری کوپورے قومی وقار اور جوش و جذبے سے ہر سال کیا جاتا ہے، اور بلاشبہ یہ بات اپنی جگہ بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ اس موقع پر ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اپنے اختلافات بھلا کر خالص قومی جذبے سے جلسے جلوس اورریلیاں منعقد کرتی ہیں۔ اس موقع پر پوری قوم بشمول حکومت تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے یہ یقین دہانی کرتی ہے کہ ہم بحیثیت قوم آزادی اور حق ِ خودارادیت کی جدو جہد میں اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہیں،اور ساتھ رہیں گے۔
اس وقت پاکستانی قوم اور کشمیریوں کے بڑے مطالبات یہ ہیں کہ حکومت قومی سیاسی قیادت کی کانفرنس طلب کرکے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے فوری طور پر نیشنل ایکشن پلان کا اعلان کرے اوراس پر عمل درآمد کا روڈ میپ دے۔حکومتی اور اپوزیشن ممبران پرمشتمل سفارتی وفود بیرون ممالک بھیجے جائیں۔آزاد کشمیر کی منتخب حکومت ان وفود کیلئے سہولت کار بنے۔مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کیلئے ایک خصوصی نائب وزیر خارجہ مقرر کیا جائے اورپاکستانی سفارت خانوں میں کشمیر ڈیسک قائم کئے جائیں۔اوآئی سی کا ہنگامی اجلاس اسلام آباد میں طلب کیا جائے اور کشمیر کی آزادی کی آواز کو پورے عالم اسلام کی آواز بنایا جائے۔اوآئی سی کے اجلاس کی طرف سے اقوام متحدہ سے مسئلہ کشمیر پر جنرل اسمبلی کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا جائے۔
جہاں تک موجودہ حکومت کا تعلق ہے وہ مکمل طور پر کشمیر کے ساتھ ہے اور اس کا ثبوت وہ تقریر ہے جو وزیر اعظم عمران خان نے جنرل اسمبلی میں کی تھی۔لیاقت علی خان نے بھارت کو مکا دکھا کر خاموش کیا تھا اور وزیر اعظم عمران خان نے دنیا بھر کی اقوام کے نمائندوں کے سامنے وہی مکا ایک بار پھر لہرایا ہے۔

مزیدخبریں