موروثی سیاست ایک لعنت ہے جس سے نجات حاصل کرنا ہو گی۔ یہ بات ایک حقیقت ہے لیکن اتفاق سے ہمیں اس دیرینہ حقیقت کا پتہ ابھی ابھی چلا ہے۔ ابھی ابھی سے مراد ”کہ جب سے مریم نواز صاحبہ سیاست میں آئی ہیں، بالخصوص جب انہیں مسلم لیگ کا نائب صدر بنایا گیا تو اس حقیقت کا پتہ ہمیں بہت زور سے چلا۔
خود مسلم لیگ کے اندر سے یہ حقیقت شناسی ہوئی۔ سب سے پہلے شاہد خاقان عباسی صاحب نے اس کا اشارہ کیا جو اپنے والد مرحوم خاقان عباسی کی شہادت کے بعد ان کی جگہ سیاست میں آئے۔ عباسی مرحوم اوجھڑی کیمپ کے حادثے میں شہید ہوئے۔ بہت مثبت قسم کی سیاست کرتے تھے۔ اوجھڑی کیمپ یاد آیا تو کچھ اور بھی یاد آیا۔ سٹنگر میزائل، اختر عبدالرحمن وغیرہ۔ خاقان عباسی اپنی سیاست کی وجہ سے بہت احترام کی نظروں سے دیکھے جاتے تھے۔ دلیر اور ایماندار وزیر تھے (بظاہر ناقابلِ یقین کہ ضیاءالحق کی کابینہ میں کوئی ہو اور ایماندار بھی ہو لیکن یہ سچ ہے) ۔ ان کی شہادت کے بعد ان کی گدّی ان کے صاحبزادے شاہد خاقان نے سنبھالی۔ ایک سال سے کچھ اوپر کے لیے وزیر اعظم بھی رہے اور اپنی سادگی، کفایت شعاری، بنا پروٹوکول کے رہنے، ایماندار اور محنت سے کام کرنے کی وجہ سے پائیدار نیک نامی کمائی۔
پھر خواجہ سعد رفیق نے بھی موروثی سیاست کے خلاف بات کی۔ آپ اپنے وقت کے نہایت دلیر اور حق گو سیاستدان خواجہ رفیق شہید کے صاحبزادے ہیں۔ تب چھوٹے تھے، بڑے ہونے پر قابلِ احترام والد کی گدّی سنبھالی۔ خواجہ آصف بھی موروثی سیاست کے خلاف بتائے گئے ہیں جو نامور سیاستدان خواجہ صفدر مرحوم کے گدّی نشین ہیں۔
دوسری سیاسی جماعتوں ، بالخصوص پی ٹی آئی کے اندر بھی موروثی سیاست کیخلاف سخت ردّعمل آیا ہے۔ خاص طور سے شاہ محمود قریشی تو بہت ہی غصے میں ہیں۔ آپ کے آباﺅ اجداد انگریزوں کے دور سے کامیاب سیاست کرتے آ رہے ہیں۔ سیاست کی یہ دیرینہ گدّی دو عشروں سے قبلہ شاہ محمود قریشی کے پاس ہے۔ ناکام سیاستدان میاں اظہر کے گدّی نشین ہونہار حماد اظہر بھی موروثیت کو سخت برا سمجھتے ہیں۔ فخر پنجاب پرویز الٰہی نے چودھری ظہور الٰہی، چودھری منظور الٰہی کی وراثت اچھے طریقے سے نبھائی اور پھر اپنے صاحبزادے جونیئر فخر پنجاب مونس الٰہی کو منتقل کر دی۔ وہ بھی موروثی سیاست سے سخت نفرت کرتے ہیں موروثی سیاست کیخلاف نفرت کی لہر اتنی تیز ہے کہ اعجاز الحق بھی اس کے خلاف جہاد پر آمادہ ہیں۔ آپ اپنے وقت کے کامیاب ترین سیاستدان ضیاءالحق مرحوم کے خلف الرشید ہیں۔
ارے، حمزہ شہباز کا ذکر تو رہ ہی گیا حالانکہ اوپر کے پہرے میں آنا چاہیے تھا۔ وہ بھی موروثی سیاست سے ناراض ہیں۔ اتنے ناراض کہ چپ کا روزہ رکھ لیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کا حلف لیتے ہی اپنے فرزند فرزند دلپسند حمزہ شہباز کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا تھا جس پر کچھ دنوں بعد عمل ہوا۔
________
موروثیت کے خلاف ایمان افروز لیکچر بعض ”روحانی“ مقام رکھنے والے دانشور تقریباً روزانہ کی بنیاد پر ہمیں ٹی وی پر دیتے بھی نظر آنے لگے ہیں۔ روحانیت کے ”فیض“ سے مالا مال یہ دانشور جب تاریخ پر دہن کشائی کیا کرتے تھے تو اموی اور عباسی خلفا کی شاندار انسانی اور اسلامی خدمات کی تفصیل بیان کرتے تھے جِسے سُن کر ان خلیفوں میں سے ہر ایک کے ساتھ عقیدت کا رشتہ جڑ جاتا ۔ ایسے نیک پاک لوگ جب موروثی سیاست کیخلاف دلائل و براہین کے انبار لگائیں گے تو کیسے ممکن ہے کہ لوگ متاثر نہ ہوں۔
بہرحال، حکومت یا بادشاہت کا موروثی ہونا ایک اضافی خصوصیت رکھتا ہے۔ ان کی موروثی حکمرانی واجب الاطاعت ہوتی ہے، سرتابی یا گلہ اعتراض کی گنجائش نہیں ہوتی۔ موروثی سیاست میں ”عقیدت مندی“ رضاکارانہ ہوتی ہے۔ کوئی عقیدت مند بننے سے انکار کر دے تو اس کا کوئی کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔
________
اس بات سے قطع نظر کہ مسلمانوں کی تاریخ بادشاہی کی تاریخ ہے چاہے وہ مابعداز خلافت کے دور ہی کیوں نہ ہوں۔ سلاطین سلاجت، سلاطین دہلی (غوری سوری وغیرہ) سلاطین مغلیہ، سلاطین دکن، سلاطین ایران و خراسان، سلاطین عرب و مغربی (شمالی افریقہ) ۔ یہاں تک کہ ہماری جنگ آزادی کے ہیرو بھی یہی سلاطین رہے ہیں۔ کیا سلطان ٹیپو اور کیا سلطان سراج الدولہ۔
پاکستان بننے کے بعد سے اب تک جتنے بھی وزیر سفیر ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور جملہ ”الیکٹیبلز“ کی بھاری اکثریت ”خاندانی“ ہے یعنی پدر کے بعد پسر، نسلاً بعد نسل۔ یہی کیفیت بلدیاتی نمائندوں کی بھی ہے۔ علاوہ ازیں ملک بھر میں سینکڑوں (بلکہ شاید ہزاروں) گدّیاں روحانی ہیں جہاں سے تعویذ گنڈے کی فراہمی کا فیضان ہمہ وقت جاری رہتا ہے۔ صرف یہی نہیں، مرید بھی موروثی ہیں۔ باپ جس کا مرید، بیٹا بھی اسی آستانے کا غلام۔
________
برصغیر میں مجموعی سیاسی مزاج بھی موروثی ہے۔ پارٹی کا نظریہ اتنا اہم نہیں ہوتا جتنی کہ شخصیت۔ کانگرس پورے بھارت پر چھائی رہی۔ جب تک اس کی قیادت نہرو خاندان کے پاس رہی۔ راجیو گاندھی کے قتل کے بعد اس جماعت کو زوال آ گیا۔ پیپلز پارٹی کے پاس بھٹو کے بعد ان کی صاحبزادی بے نظیر شہید کی قیادت تھی، ان کے بعد ان کے صاحبزادے بلاول قائد بن گئے یوں اس کا شیرازہ مستحکم رہا۔ اگر یہ جانشین نہ ہوتے تو پیپلز پارٹی کی صورتحال مرحوم نوابزادہ نصراللہ کی پی ڈی پی سے کچھ ہی بہتر ہوتی۔ نصراللہ خاں سے یاد آیا، آپ کے ”جمہوری“ ہونے میں کسی کو شک و شبہ نہیں ہے۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کی جماعت ان کے صاحبزادے نے سنبھالی جو سنبھالی نہ گئی چنانچہ اپنی جماعت کو پی ٹی آئی میں ضم کر کے ثواب دارین حاصل کیا۔ مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم بہت قدآور لیڈر تھے۔ آپ کے بعد کوئی جانشین تھا نہ قد آور شخصیت ، نتیجہ یہ جماعت اب آثار قدیمہ میں گنی جاتی ہے۔ الطاف حسین کے غیر موثر ہونے کے بعد ”متحدہ“ پھر سے متحد ہو کر بھی بے اثر ہے۔ مطلب یہ کہ شخصیت کا ہونا بہت ضروری ہے اور متحدہ کے پاس اشخاص تو بہت تھے، شخصیت نہیں تھی۔
________
ایک نکتے کی بات جسے نکتہ داں کے منصب پر فائز حضرات فوراً مسترد کر دیں گے، یہ ہے کہ اگر ورثہ پانے والی شخصیت قابل اور ذہین ہے جس طرح کہ اندرا گاندھی اور بے نظیر صاحبہ تھیں تو پھر خرابی کا اندیشہ کیسے ہو سکتا ہے؟۔ اور اگر وارث بے صلاحیت ہے جیسے کہ گوہر ایوب اور اعجاز الحق ہیں تو خود ہ بے نام و نشاں ہو جائے گا، اس صورت میں بھی کوئی خرابی نہیں ہو گی۔
بہرحال، موروثیت ہے تو ایک لعنت اور یہ بات ہے تو حقیقت۔ یہ الگ بات ہے کہ اس حقیقت سے ”شناسی“ ہمیں مریم نواز صاحبہ کے آنے کے بعد ہوئی۔
________